امریکہ نے عمران کی رہائی کے لیے کردار ادا کرنے سے معذرت کر لی
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کیلئے یوتھیوں کے ترلوں کے جواب میں امریکہ نے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر عمرانڈوز کے خوابوں کے محل پاش پاش کر دئیے ہیں۔ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر عمران خان کی رہائی کے دعوے کرنے والوں کو اس وقت منہ کی کھانا پڑ گئی جب امریکی ترجمان نے یوتھیوں کے دعووں پر منہ توڑ جواب دیتے ہوئے قرار دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کی بات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے زور ویور سے دعوے کئے جا رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوتے ہی اپنے قریبی دوست عمران خان کو جیل سے باہر لے آئیں گے تاہم جب اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر سے صحافی نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات جیتے تو بانی پی ٹی آئی رہا ہوجائیں گے، میتھیو ملر نے جواب میں کہا کہ میں کتنی بار کہوں کہ یہ سچ نہیں ہے۔ سابق وزیراعظم کے خلاف قانونی کارروائیاں پاکستانی عدالتوں کا معاملہ ہے، اور ان سے متعلق فیصلہ بھی پاکستانی عدالتوں نے کرنا ہے۔
میتھیو ملر نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہا کہ یہ بات بھی ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی میں امریکی کردار کے الزامات غلط ہیں، بانی پی ٹی آئی کو ہٹانے میں امریکا کا کردار نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست کا معاملہ پاکستانی عوام کو اپنے قانون اور آئین کے مطابق طےکرنا ہے۔
دوسری جانب مبصرین کا دعوی ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے اگر امریکہ اور برطانیہ کے سارے ارکان پارلیمنٹ خود کشی کی دھمکی بھی دیدیں تو تب بھی ان کی مراد بر نہیں آئے گی کیونکہ ریاست فیصلہ کر چکی ہے کہ فتنہ پرور عمران خان کو اصلاح ہونے تک پابند سلاسل ہی رکھا جائے گا۔ اس لئے نومبر کے بعد بھی قیدی نمبر آٹھ سو چار کی رہائی کا امکان معدوم ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام کہ جانب سے امریکہ اور برطانیہ کے مٹھی بھر ارکان کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے متعلق اپنی حکومتوں کو لکھے جانے والے خطوط کو جوتی کی نوک پر رکھا گیا ہے۔ ویسے بھی پاکستانی حکومت کے نزدیک ایسے خطوط کی رتی بھر اہمیت نہیں کیونکہ سزایافتہ مجرم کی رہائی کے لیے امریکہ، برطانیہ یا کسی اور ملک کی جانب سے حکومتی سطح پر اب تک ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس حوالے سے پہلے ہی امریکہ اور یورپ کے ممالک کو سفارتی سطح پر آگاہ کیا جاچکا ہے کہ عمران خان کی سزائیں اور جیل عدالتوں کے فیصلے اور پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان کے اس موقف کو امریکہ اور برطانیہ سمیت سب نے تسلیم بھی کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ارکان کانگریس کا خط ہو یا یا کوئی قرار داد، امریکی حکومت نے اس سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر کبھی ان ممالک کی جانب سے حکومتی سطح پر ایسا کوئی مطالبہ آتا بھی ہے تو اسی زبان میں اس کا جواب دیا جائے گا۔
ذرائع نے زور دے کر کہا کہ 9 مئی کے حملوں پر قوم سے بلامشروط معافی ہی عمران خان کی رہائی کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بیرون ملک بیٹھ کر پیسے کے زور اور ملک دشمن عناصر کو استعمال کرکے بانی پی ٹی آئی کو رہا کرلے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
عمران خان سے متعلق امریکی نمائندگان کاخط اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، پاکستانی پارلیمنٹیرینز
ایک امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ سابق پاکستانی عہدیدار کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں اس بات کو سمجھتی ہیں کہ 9 مئی کا معاملہ ریاست کے لئے کس قدر حساس ہے اور وہ کبھی بھی کسی فرد واحد کے لیے پاکستان کو ناراض نہیں کریں گی، وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب مشرق وسطیٰ کا بحران بڑھتا جارہا ہے اور ایران اور اسرائیل براہ راست ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں۔عہدے دار کے بقول بالفرض اگر ٹرمپ دوبارہ صدر بن بھی جاتے ہیں تو یہ ضمانت کس نے پی ٹی آئی کو دی ہے کہ وہ ذمہ داری سنبھالتے ہی حکومت پاکستان پر عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے؟ عمران خان کی رہائی پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے تو مسئلہ اول ہو سکتی ہے، نو منتخب امریکی صدر کے لیے نہیں۔ جو بھی اگلا امریکی صدر ہوگا اسے پہاڑ جیسے اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا ہوگا۔ ایسے میں وہ ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر فرد واحد عمران خان کیلئے پاکستانی حکام سے پنگا نہیں لے گا۔ مبصرین کے مطابق اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ ٹرمپ دوبارہ صدر بن جاتے ہیں اور عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہیں تو کیا ریاست اس دباؤ کے آگے ڈھیر ہو جائے گی؟ جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ عمران خان کا معاملہ سیاسی نہیں بلکہ 9 مئی سے جڑا ہے جسے ریاست ملکی سلامتی پر حملہ تصور کرتی ہے۔