عمران خان سے متعلق امریکی نمائندگان کاخط اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، پاکستانی پارلیمنٹیرینز

امریکی 62 نمائندگان کے خط کےجواب میں پاکستان کے 160 ارکان پارلیمنٹ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر اس معاملے کو ملکی معاملات میں مداخلت قرار دےدیا۔

امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے صدر جو بائیڈن کو عمران خان کی رہائی کےلیے لکھے گئے خط کے جواب میں پاکستانی پارلیمنٹ کے 160 اراکین نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر اس معاملے کو ملکی معاملات میں مداخلت قرار دے دیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف خط لکھنے والوں میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، نوید قمر،مصطفیٰ کمال، آسیہ ناز تنولی،خالد مگسی اور دیگر شامل ہیں۔

خط کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کے 62 ارکان کی جانب سے جو بائیڈن کےنام لکھےگئے خط میں نہ صرف غلط حقائق پیش کیےگئے بلکہ ایک خاص پارٹی کے بے بنیاد سیاسی بیانیے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا جو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

پاکستانی پارلیمینٹیرینز نے خط میں لکھا  کہ اگرچہ امریکی کانگریس کے ارکین کو سیاسی رائےاور اظہار رائےکی آزادی حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے مذکورہ خط اسی سیاسی جماعت کی جانب سے پھیلائی جانےوالی غلط معلومات سے متاثر ہے۔

ہم بحیثیت پارلیمنٹیرینز اپنی ذمہ داری سمجھتےہیں کہ ہم وزیر اعظم کےتوسط سے کانگریس کے معزز ارکان کو آگاہ کریں کہ پاکستان میں قابل اعتماد سیاسی عمل کو بد نام کرنے کی مہم کےپیچھے سیاسی محرکات کو دیکھیں۔

اراکین اسمبلی نے امریکی اراکین کانگریس کا عمران خان کےلیے لکھےگئے خط کو ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیتےہوئے کہاکہ عمران خان  کی منفی مہم میں امریکا اور برطانیہ میں مقیم منحرف عناصر کردار ادا کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم کو لکھےگئے خط میں کہاگیا کہ کسی بھی دوسری جمہوریت کی طرح پاکستان جمہوری چیلنجز سے نبرد آزما ہے جسے انتہاپسندی کی سیاست نےمزید پیچیدہ کردیا ہے جس کی مثال عمران خان کی شخصیت سے ملتی ہے۔

عمران خان  نے ریاستی اداروں کےخلاف سیاسی تشدد کو متعارف کرایا،انہوں نے 9 مئی 2023کو بڑے پیمانےپر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی اور ہجوم کو پارلیمنٹ، سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت،ریڈیو پاکستان پر حملے کےلیے اکسایا۔

انقلاب کے منتظر افراد کو کسی نئے ’’تنکے‘‘ کی ضرورت

اراکین پارلیمنٹ نے خط میں کہاکہ عمران خان نے انتشاری سیاست سےاگست 2014 اور مئی 2022 میں بھی ملک کو مفلوج کیاتھا، عمران خان  جیل سے اسلام آباد،لاہور میں انتشار، تشدد کو ہوا دینےپر اکساتے رہےہیں۔

وزیر اعظم کو لکھےگئے خط میں کہاگیا ہے کہ عمران خان نے ڈیجیٹل دہشت گردی سے سوشل میڈیا کو انتشار اور بد امنی کو ہوا دینےمیں استعمال کیا، انہوں نے ڈیجیٹل دہشتگ ردی سے ریاست کو دھمکانے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا۔

خط میں کہا گیا کہ بد قسمتی سے امریکا اور برطانیہ میں رہنےوالے منحرف عناصر کی جانب سےاس منفی مہم میں مرکزی کردار ادا کیاگیا جس کی وجہ سے دونوں ممالک اپنے شہریوں کےخلاف غیر معمولی اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ فروری 2024 میں ہونےوالے پاکستان کے عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں کانگریس کے ارکان کے خیالات بھی درست نہیں ہیں جنہیں عالمی سطح پر آزادانہ اور منصفانہ تسلیم کیاگیا ہے۔

خط کےمطابق پی ٹی آئی کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہر اس انتخابی عمل کو بدنام کیا جائے جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے جیسا کہ انہوں نے 2008 اور 2013 کے انتخابات میں کیاتھا۔

خط میں کہاگیا کہ عمران خان انسانی حقوق اور جمہوریت کےچیمپیئن نہیں ہیں جو ان کے طالبان سے متعلق معذرت خواہانہ بیانات،پارلیمانی جمہوریت کی توہین اور سفارتی اقدار کی توہین سے ظاہر ہوتا ہے۔

امریکی کانگریس کےارکان کی جانب سے ایک ایسےشخص کی اندھی حمایت دیکھ کر ہم حیران ہیں جسے کیلیفورنیا کی ایک عدالت نےاپنی بیٹی کی سرپرستی سے انکار کرتےہوئے پایا ہے اور وہ آج تک اس عدالت کا مفرور ہے۔

خط میں کہاگیا کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ عمران خان اس وقت بدعنوانی کے الزامات پر عدالت کی جانب سے سنائی گئی قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جسے وہ اور ان کی جماعت سیاسی مقدمات قرار دےرہے ہیں جب کہ کانگریس کے ارکان کی جانب سے زیر سماعت مقدمات پر تبصرےسے پاکستان میں عدالتی عمل پر غیر منصفانہ اثر پڑنےکا امکان ہے۔

خط کےمطابق ہم جانتےہیں کہ امریکا میں انتخابات کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں لہٰذا ایک چھوٹے سےحصے کو مطمئن کرنے کےلیے دوسرے ممالک کو داخلی انتخابی میدان میں گھسیٹنا غلط ہے۔

خط میں یاد دہانی کروائی گئی کہ عمران خان کی جانب سےسیاسی فائدے ک لیے سفارتی رابطوں کا اسی طرح کا غلط استعمال پاک امریکا تعلقات کی موجودہ تاریخ کے سنگین ترین بحران کا باعث بنا، افسوسناک بات یہ ہےکہ امریکی کانگریس کے معزز ارکان نےمعاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کی گواہی کو نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے عمران خان پر جھوٹ پر مبنی مہم چلانےکا الزام لگایا تھا۔

خط میں مزید کہاگیا کہ پاکستان اور امریکا کےدرمیان دوطرفہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے، دونوں ممالک ایک دوسرےکو باہمی اعتماد اور احترام کی نگاہ سے دیکھتےہیں۔

Back to top button