عمران خان کس بدتمیز لڑکی کو سبق سکھانا چاہتے تھے ؟
جیو ٹی وی سے وابستہ معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کے ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بھی زیر عتاب تھیں اور آج بھی عتاب کا شکار ہیں۔ عمران کے دور حکومت میں بھی ایمان مزاری غدار اور دہشت گرد کہلاتی تھیں اور شہباز شریف کے دور میں بھی دہشت گرد کہلاتی ہیں۔ لیکن ایمان کو گرفتار کر کے شہباز شریف نے اپنے سینے پر جو تمغہ سجایا ہے وہ بدنامی کا تمغہ کہلاتا ہے۔
اپنی تازہ تحریر میں حامد میر بتاتے ہیں کہ ایک روز انہوں نے عمران خان کو بطور وزیراعظم یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’اس بدتمیز لڑکی کو سبق سکھانا بہت ضروری تھا”۔ دراصل اس روز اسلام آباد پولیس نے ایمان مزاری پر غداری کا مقدمہ درج کیا تھا۔ ایمان پر الزام تھا کہ انہوں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر بلوچ طلبا کے مظاہرے میں محسن داوڑ کے ہمراہ ریاست کے خلاف قابل اعتراض گفتگو کی۔ معاملہ یہ تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بلوچ طلبا کو شکایت تھی کہ ایک ریاستی ادارے کا ایک افسر یونیورسٹی انتظامیہ کی مدد سے انہیں صرف ان کی بلوچ شناخت کی وجہ سے ڈرا دھمکا رہا تھا۔ اس افسر کی یونیورسٹی میں آمد و رفت کے بعد کچھ بلوچ طلبا لاپتہ ہو چکے تھے لہٰذا یونیورسٹی کے بلوچ طلبا کا یہ مطالبہ تھا کہ اگر ہم کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تو ہمیں تعلیم حاصل کرنے دی جائے اور ڈرا دھمکا کر یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
بقول حامد میر ایمان مزاری نے ناصرف ان طلبا کے مطالبے کی حمایت کی بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر دی جس میں ان طلبا کو انکی بلوچ شناخت کی وجہ سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بند کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ایمان مزاری پر تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کر کے ایف آئی آر سیل کر دی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ایف آئی آر کی نقل ملزمہ کو فراہم کی گئی تو اس میں ریاست کے خلاف بغاوت کا الزام تھا۔ میں نے ایمان مزاری اور محسن داوڑ پر دفعہ 124اے کے تحت مقدمے کے اندراج کو نو آبادیاتی قانون کا غلط استعمال قرار دیا تو ایک ریاستی ادارے کے اعلیٰ افسر نے رابطہ کیا۔ اس افسر نے اپنے لہجے میں عاجزی پیدا کرتے ہوئے گزارش کی کہ آپ کچھ دنوں کےلیے ایمان مزاری کی حمایت نہ کریں کیونکہ اس لڑکی نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے افسر موصعف سے کہا کہ ایمان کی والدہ ڈاکٹر شیریں مزاری وفاقی وزیر ہیں لہٰذا آپ ان سے بات کریں۔ تاہم مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحبہ اس معاملے میں بے بس ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ تب شیریں مزاری کے پاس انسانی حقوق کی وزارت تھی انہوں نے صحافیوں کے تحفظ اور لاپتہ افراد کی بازیابی کےلیے قوانین کے جو مسودے تیار کئے تھے ان پر اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ان سے خوش نہیں تھے۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری اور محسن داوڑ کے خلاف غداری کا یہ مقدمہ ختم کرا دیا۔
کچھ دن بعد حالات نے ایک نئی کروٹ لی، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان ہوا تو حکومت کا سیاسی رعب و دبدبہ آدھا رہ گیا اور سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ نئے دور کی نئی پابندیوں کے شکار ساتھی مدد کےلیے میرے پاس آتے اور میں انہیں ایمان مزاری کے پاس بھیج دیتا، وہ بدتمیز لڑکی جو تحریک انصاف کے دور میں مشکلات کا شکار رہی اب تحریک انصاف کے حامی اسی بدتمیز لڑکی سے مدد مانگ رہے تھے۔ ایمان مزاری کی والدہ کی سیاسی وفاداری تبدیل کرانے کےلیے ان پر ایک جھوٹا کیس قائم کرایا گیا جس میں انکی ضمانت ہو گئی۔ لہٰذا ان کی ایک اور کیس میں گرفتاری ڈال دی گئی۔
حامد میر کے مطابق اس ناانصافی پر ایمان مزاری نے جنرل باجوہ کے بارے میں کچھ نامناسب ریمارکس پاس کر دیے۔ چنانچہ 26 مئی 2022ء کو رمنا پولیس اسٹیشن اسلام آباد میں ایمان مزاری کے خلاف تعزیزات پاکستان کی دفعہ 505کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور مدعی جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ جی ایچ کیو کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل ہمایوں افتخار تھے، ایک حاضر سروس فوجی افسر بدتمیز لڑکی کے خلاف خود مدعی بن گیا تھا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو ایمان کی وکیل زینب جنجوعہ نے جنرل باجوہ کے بارے میں کہے گئے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا۔ جیگ برانچ کے وکیل نے مطالبہ کیا کہ افسوس کا اظہار قابل قبول نہیں ایمان مزاری میڈیا پر جنرل باجوہ سے معافی مانگے، جنرل باجوہ کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی۔ عدالت نے یہ مقدمہ نمٹا دیا کیونکہ اس کی قانونی بنیاد بہت کمزور تھی۔
عمران خان کا فوج اور آرمی چیف مخالف پالیسی بدلنے کا فیصلہ
حامد میر کا کہنا ہے کہ نومبر 2022ء میں جنرل باجوہ قصہِ ماضی بن گئے لیکن ایمان مزاری کی بدتمیزیاں ختم نہ ہوئیں۔ ستمبر2023ء میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں تقریر پر ایمان مزاری کو غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس مقدمے میں ضمانت ہوئی تو دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی۔ رہائی کے بعد ایمان مزاری نے اپنے ایک ساتھی وکیل ہادی علی چٹھہ سے شادی کر لی، اور وہ بھی ایمان کی بدتمیزیوں میں شریک ہوگئے۔ ایک دن دونوں میاں بیوی صبح صبح عدالت جا رہے تھے تو دیکھا کہ وی آئی پی موومنٹ کے باعث راستہ بند تھا۔ چنانچہ ان کا موقع پر موجود پولیس اہلکاروں سے جھگڑا ہوا اور دونوں میاں بیوی گرفتار کر لئے گئے، دونوں پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہو گیا۔ سب جانتے ہیں کہ ان دونوں کا اصل قصور یہ ہے کہ کبھی ایک بدتمیز شاعر احمد فرہاد کے وکیل بن جاتے ہیں، کبھی بدتمیز صحافی اسد طور کی وکالت کرتے ہیں، کبھی ماہ رنگ بلوچ اور کبھی علی وزیر کو انصاف دلانے عدالت جا پہنچتے ہیں۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ ایمان اور ہادی خوش قسمت ہیں کہ ان کی پہچان مظلوموں کی حمایت ہے ان دونوں سے وہ ظالم نفرت کرتے ہیں جن کو خلق خدا بددعائیں دیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی ایمان غدار اور دہشت گرد کہلاتی ہے اور شہباز شریف کے دور میں بھی دہشت گرد کہلاتی ہے۔ تاہم ایمان کو گرفتار کر کے شہباز شریف نے اپنے سینے پر جو تمغہ سجایا ہے وہ تمغہِ بدنامی کہلاتا ہے۔