یوتھیوں نے عمران کے بازیاب وکیل کا اغوا بھی ایجنسیوں پر ڈال دیا
ایک ماہ بعد بازیاب ہونے والے عمران خان کے وکیل انتظار پنچوتہ کے اس واضح بیان کے باوجود کہ انہیں دو کروڑ روپے تاوان وصول کرنے کی خاطر اغوا کیا گیا، کپتان کے یوتھیوں نے اس اغوا کا مدعا بھی خفیہ ایجنسیوں پر ڈال دیا ہے۔
اس الزام کے بعد انتظار پنچوتہ کے اغوا اور بازیابی کا معاملہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا ہے، تاہم سوشل میڈیا پر یوتھیوں کی جانب سے لگائے گئے الزام کو ماضی کی طرح پذیرائی حاصل نہیں ہو پائی کیونکہ خود بازیاب ہونے والے شخص نے ایسا کوئی الزام عائد نہیں کیا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے اس اغوا کا مدعا خفیہ ایجنسیوں پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ انتظار کو عمران خان کا وکیل ہونے کی سزا دی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا یے کہ تحریک انصاف عمران کے وکیل کا پنجاب پولیس کے ہاتھوں اغوا کاروں سے ایک مقابلے کے بعد رہائی کا ڈرامہ مسترد کرتی ہے۔ انتظار کو بھی پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے حکومت اور اس کے سہولت کاروں نے ملی بھگت سے اغوا کروایا، اس پر شدید تشدد کیا اور ہھر عدالتی مداخلت پر رہا کر دیا گیا تاکہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دے ۔
پی ٹی ائی کا کہنا ہے کہ انتظار حسین کے ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے چند روز پہلے ہی ہائی کورٹ میں بیان دیا تھا کہ اسے اگلے 24 گھنٹے میں رہا کروایا لیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کا الزام یے کہ اس بیان کے دو روز بعد ہی انتظار کی برآمدگی اغواکاروں، پنجاب پولیس اور اٹارنی جنرل میں تال میل ثابت کرتی ہے۔
یاد رہے کہ انتظار حسین پنچوتہ کو تین نومبر کی رات اٹک کی حدود میں ایک پولیس مقابلے کے بعد بازیاب کروایا گیا۔ بھلوال شہر سے تعلق رکھنے والے عمران کے وکیل کا کہنا ہے کہ اسے کئی گھنٹوں سے بذریعہ کار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا تھا جب پولیس نے اغوا کاروں کو ناکے پر روکا اور فائرنگ کے تبادلے کے بعد اسے بازیاب کروایا۔
زرائع کا کہنا ہے کہ ہفتہ کی رات آدھی رات کے وقت تھانہ حسن ابدال کی حدود میں پولیس ناکے پر خیبر پختونخوا کی جانب سے آنے والی اسلام آباد نمبر کی ایک مشکوک کار کو معمول کی چیکنگ کے لئے روکا گیا جس میں سوار چار افراد نے فائرنگ شروع کردی، لیکن پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں کار سوار گاڑی سڑک پر ہی چھوڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
کیا بشریٰ بی بی کے بعد عمران بھی جیل سے رہائی پانے والے ہیں؟
پولیس ذرائع کے مطابق ان کے فرار کے بعد پولیس نے گاڑی کی تلاشی کے دوران ایک شخص کو آنکھوں پر پٹیوں اور رسیوں میں جکڑے پچھلی سیٹ پر پڑے پایا۔ جب اس کی آنکھوں پر بندھی پٹیاں ہٹا کر اس سے شناخت دریافت کی تو اس نے دھیمی آواز میں اپنا نام انتظار حسین بتایا جس کی اطلاع پولیس نے حکام بالا کو دی جس کے بعد اسے پولیس کی نگرانی میں تھانے پہنچا دیا گیا۔ بعد میں انتظار نے انکشاف کیا کہ انہیں نامعلوم اغوا کاروں نے 8 اکتوبر کو اسلام آباد سے تب اغواءکیا جب وہ رات کے وقت آفس سے گھر جارہے تھے۔ اغوا کاروں نے ان کے ہاتھ باندھ کر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور طویل سفر کے بعد انہیں نامعلوم منزل پر پہنچا دیا جہاں انہوں نے بہیمانہ تشدد شروع کر دیا اور دو کروڑ روپے تاوان طلب کرتے رہے۔
تاوان کی رقم کا سن کر پولیس نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کوئی کاروباری شخصیت ہیں تو پنجوتہ نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور اسلام آباد اور لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں۔ دوسری طرف پولیس حکام نے سوشل میڈیا پر انتظار کے اغوا کی ذمہ داری ایجنسیوں اور پولیس پر ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس منفی پروپگینڈے میں ملوث یوٹیوبرز کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ اٹک پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایک تو پولیس جوانوں نے مسلح اغوا کاروں کا مقابلہ کرتے ہوئے انتظار حسین کو بازیاب کروایا تو دوسری طرف پولیس کے خلاف ہی جھوٹا اور منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔