کیا بشریٰ بی بی کے بعد عمران بھی جیل سے رہائی پانے والے ہیں؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہا ہے کہ اسلام اباد میں افواہیں گرم ہے کہ بشری بی بی کی جیل سے رہائی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں رہائی حاصل کرنے والے ہیں۔ ان کے مطابق فوج اور کپتان دونوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اگر ایک ہی دریا میں رہنا ہے تو مگر مچھوں کو ایک دوسرے سے بیر نہیں ڈالنا چاہیے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی رہا ہو کر براستہ پشاور لاہور پہنچ چکی ہیں۔ اس بار اُن پر کوئی نیا کیس نہیں کیا گیا‘ اور یوں اُنہیں سکون کا سانس نصیب ہوا ہے۔ خان صاحب کی دونوں بہنیں بھی چند روز جیل کی ہوا کھانے کے بعد رہا ہو چکی ہیں‘ اُنہیں عملی سیاست سے کوئی غرض نہیں‘ لیکن بھائی کی محبت نے اُنہیں بھی ”سیاسی‘‘ بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے دیوانے کبھی بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی علیمہ خان اور اُن کی ہمشیرہ کی طرف۔ لطیف کھوسہ کا اصرار ہے کہ عمران اپنی تیسری اہلیہ کو اپنا ”فوکل پرسن‘‘ مقرر کر دیں‘ اُن کی زبان سے بولیں اور اُن کے کانوں سے سنیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اس طرح اُن کی پارٹی کو یکسوئی نصیب ہو جائے گی۔
تاہم مجیب شامی کے مطابق ساری عمر پیپلزپارٹی کی نذر کرنے کے بعد کوٹا بن جانے والے کھوسہ اگرچہ عمران خان کی غیر مشروط بیعت کر چکے ہیں تاہم ان کے اندر سے پیپلزپارٹی نہیں نکل پا رہی۔ وہ بشریٰ بی بی کو محترمہ نصرت بھٹو بنا کر بالآخر تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی بنانا چاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
بشریٰ بی بی اور ‘عمران سسٹرز‘ کی پکّی رہائی نے اُن کے مخالفین کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔ انہیں یہ ڈھیل کسی ڈیل کا نتیجہ دکھائی دے رہی ہے۔ علی امین گنڈا پور کی گھن گرج اس تاثر کو گہرا کررہی ہے۔ اُن کے ترجمان بیرسٹر سیف بھی یہ دُور کی کوڑی لائے ہیں کہ عمران کی فوج سے ڈیل تو نہیں ہوئی‘ لیکن ”انڈرسٹینڈنگ‘‘ ضرور ہوئی ہے۔
سینیئر صحافی کے مطابق ایک طرف فوج کو تحریک انصاف کی سخت جانی کا احساس ہو گیا ہے تو دوسری جانب کپتان کو بھی فوج کی طاقت کا پتہ چل گیا ہے‘ دونوں نے اب یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر انہیں دریا میں رہنا ہے تو ایک دوسرے سے بیر نہیں رکھ سکتے۔ ویسے بھی دریا نیام تو ہوتا نہیں ہے کہ جس میں دو تلواریں نہ سما سکیں‘ اس کی وسعت میں دو تو کیا کئی مگر مچھ بآسانی سما سکتے ہیں۔ شاید اسی لیے علی امین گنڈاپور بشریٰ بی بی کی رہائی کا کریڈٹ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اشارے بھی دے رہے ہیں کہ اہلیہ کی رہائی کے بعد انکے شوہر بھی جلد زمان پارک پہنچ جائیں گے۔ یعنی پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا۔ یہ منظر ان لوگوں کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے جو خان کو تاحیات جیل میں بند دیکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن جو لوگ پاکستانی سیاست کو ہموار رکھنے کی آرزو رکھتے ہیں‘ ان کے لیے یہ خوشخبری ہے۔
کیا حکومت واقعی نئے چیف جسٹس کے خلاف مہم میں ملوث ہے ؟
شامی کے مطابق جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ اس میں کسی شخص یا جماعت کا راستہ ہمیشہ کیلئے مسدود نہیں کیا جا سکتا۔ایک الیکشن ہارنے والے دوسرے الیکشن میں جیت کر آ سکتے اور کھویا ہوا وقار پھر حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر عمران خان اپنے خلاف قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیتے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی طرح اُن کے ستارے بھی بگڑ کر سنور سکتے تھے لیکن اُنہوں نے اسمبلی سے استعفیٰ دے کر سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کر دیا‘ اپنے اقتدار کے خاتمے کو امریکی سازش کا نتیجہ قرار دیا اور احتجاج کرتے کرتے اس حد تک چلے گئے جس حد تک کوئی جاتا ہے تو واپس نہیں آ پاتا۔ گزشتہ دو برس میں خان صاحب اور ان کی جماعت کو جو کچھ بھگتنا پڑا ہے‘ وہ اس سے محفوظ رہ سکتے تھے‘ اگر پارلیمانی سیاست کے آداب و اطوار اپنائے رہتے۔ نہ اپنا بال بیکا ہوتا نہ کسی دوسرے کا۔ اب ہوا کا رُخ بتا رہا ہے کہ خان صاحب کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ ان کے کئی حلقہ بگوش ڈونلڈ ٹرمپ سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے حریفوں کو ڈرا رہے ہیں کہ ٹرمپ جیتے تو خان کو جیل میں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
تاہم سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ عمران خان کا اپنا مفاد اس میں ہے کہ وہ پاکستانی قوم کے ساتھ جڑے رہیں اور اسی کو طاقت کا سر چشمہ سمجھیں۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران نے سب سے ذیادہ سیاسی کمائی امریکہ پر اپنے خلاف سازش کا الزام عائد کر کے حاصل کی ہے لہذا اب امریکہ کی مدد سے اقتدار میں آنے کی خواہش انہیں زیب نہیں دیتی۔