امریکی سازش کا الزام لگانے والے یوتھیوں نے ٹرمپ سے امید کیوں لگا لی؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے سوال کیا ہے کہ کل تک عمران خان کی حکومت کے خاتمے کو ایک امریکی سازش کا نتیجہ قرار دینے والے کپتان کے یوتھیے آج کس منہ سے اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکی صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد پاکستان میں پی ڈی ایم حکومت ختم ہو جائے گی اور خان صاحب دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔
شدید نوعیت کی کنفیوژن کا شکار ہوں،بلال غوری
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ میں کچھ دنوں سے شدید نوعیت کی کنفیوژن کا شکار ہوں۔ قیدی نمبر 804 فرمایا کرتے تھے کہ نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، یہ کٹھ پتلیاں ہیں، انکی کوئی حیثیت نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت یا سیاسی قیادت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، اور بات چیت صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہو گی۔ مگر اب ان کے جانثار شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا ہے کہ جب نوازشریف چاہیں گے، عمران خان تب ہی رہا ہونگے۔ ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل نے فرمایا کہ پاکستان کا سسٹم آج بھی نوازشریف کے تابع ہے اگر عمران خان نوازشریف سے معافی مانگ لیں تو رہا ہو جائینگے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ ہمیں تو کپتان کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ نوازشریف کی سیاست ختم ہو گئی ہے، ایسے میں موجودہ نظام کی کنجی ان کے پاس ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کو رہا کرنے کا فیصلہ اور اختیار نواز شریف کے پاس ہے تو پھر نونہالان انقلاب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی دعائیں کیوں کر رہے ہیں؟ پاکستانی نژاد امریکی ساجد تارڑ ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت قریب سمجھتے جاتے ہیں، وہ واضح کر چکے ہیں کہ عمران خان ٹرمپ کی پھپھی کا پتر ہے اور وہ حکومت میں آتے ہی اسے رہا کروا لیں گے۔ یادش بخیر، عمران نامی مہاتما ایک سے زائد مواقع پر فرما چکے ہیں کہ میرا قصور امریکہ کو ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کہنا ہے، چونکہ میں حقیقی آزادی کیلئے ڈٹ گیا اسلئے میری حکومت گرادی گئی۔
ڈونلڈ لو سے لڑائی ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ ہمارا بھائی ہے
خان کے اس دعوے کے بعد طفلان انقلاب نے ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ ڈالے اور امریکی سازش یعنی رجیم چینج آپریشن کیخلاف بطور احتجاج ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ جیسے سیاسی نعروں کے ذریعے سماں باندھ دیا۔ لیکن اب تازہ خبر آئی ہے، ڈونلڈ لو سے لڑائی ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ ہمارا بھائی ہے۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے ذریعے بانی تحریک انصاف کا یہ مطالبہ سامنے آیا کہ پاکستان کے عام انتخابات میں دھاندلی کیخلاف امریکہ آواز اُٹھائے۔ اور پھر امریکی ایوان نمائندگان نے باقاعدہ قرارداد منظور کی کہ پاکستان میں انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اتنی جلدی تو راجہ داہر کی قید میں موجود خواتین قیدیوں کی پکار پر محمد بن قاسم نے لبیک نہیں کہا تھا جتنی سرعت سے امریکی حکام نے عمران خان کی دادرسی کا اہتمام کیا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوگئی بلکہ امریکی میڈیا نے بانی پی ٹی آئی کے حق میں مضامین شائع کئے، ان کیلئے بھرپور مہم چلائی اور پھر 60 ارکان کانگریس نے قیدی نمبر 804 کو رہا کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ایک بار تو مجھے لگا شاید امریکی انتظامیہ بدل گئی ہے، جوبائیڈن اور ڈونلڈ لو کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے اور نیا امریکہ وجود میں آچکا ہے اسلئے سابقہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے اپنے لاڈلے اتحادی کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر ابھی تک سب کچھ جوں کا توں ہے۔ البتہ طفلان انقلاب نے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی اُمیدوں اور توقعات کا مرکز بنالیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے تو وہ عمران خان کو رہا کروائیں گے ۔ یوں امریکہ کے اثر و رسوخ اور دبائوکے ذریعے پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت بحال ہوجائے گی۔
بلال غوری کے مطابق تاریخ بتاتی ہے کہ امریکی حکام نے مطلق العنان حکمرانوں کی سرپرستی کی اور جب یہ بھید کھل گیا کہ وہ امریکہ کے پروردہ ہیں تو لوگ ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور تختہ اُلٹ دیا گیا۔ اسکے بعد امریکہ نے انہیں سیاسی پناہ فراہم کی اور عوام کے اشتعال سے بچایا۔ مگر یہاں تو اس کے برعکس معاملہ ہوا۔ کپتان نے ایک سادہ کاغذ کو بطور سائفر لہرا کر الزام عائد کیا کہ امریکہ نے لکھ کر انہیں دھمکی دی ہے۔ اس کے بعد کپتان نے عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کروانے کے بجائے اسے عالمی سازش کہہ کر مسترد کر دیا۔ اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک عرصہ تک کپتان کی جانب سے یہ منجن بیچا جاتا رہا کہ امریکہ نے انہیں غلامی قبول نہ کرنے کی سزا دی ہے اور انکو ہٹا کر اپنے کارندوں کو مسلط کر دیا ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کے بانی رہا ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انہیں امریکہ سے ہاتھ ملانا پڑا توخاطر جمع رکھئے، وہ پاک امریکہ تعلقات کی ایسی فضیلت بیان کریں گے کہ ان کے پیروکار واشنگٹن اور نیو یارک کو مکہ اور مدینہ قرار دینے لگیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے خود تو کبھی رنگ بدلنے والا گرگٹ نہیں دیکھا لیکن عمران خان اور ان کے پیروکاروں کو تیزی سے رنگ اور آہنگ بدلتے کئی بار دیکھا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اگر گرگٹ کو معلوم ہو جائے کہ پاکستان میں کتنے بڑے گرو کا ظہور ہو چکا ہے تو وہ بھی مہاتما کو اپنا مرشد مان لے گا۔