شنگھائی کانفرنس کی آڑ میں پاک بھارت مذاکرات شروع ہونے کا امکان

پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی جانب سے یہ بیان دیے جانے کے باوجود کے اسلام اباد میں ان کے قیام کے دوران پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، سفارتی حلقے یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کی شنگھائی کانفرنس کی آڑ میں دونوں ممالک دوبارہ سے معنی خیز سفارتی مذاکرات شروع کرنے کا راستہ نکال سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرِ خارجہ جے شنکر کا دورہ پاکستان دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ انڈین حکومت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس کے دوران متوقع طور پر ایسے بہت سے مواقع نکلیں گے جہاں دونوں ممالک کے درمیان خاموشی سے مذاکرات یا غیر رسمی بات چیت ہو سکے۔ ان کے مطابق اسوقت دونوں ممالک کو باہمی اعتماد بحال کرنے اور خطے کی سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں کے لیے بہتر اقتصادی اور تجارتی مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ دو ہمسایوں کے خراب تعلقات کے سبب ترقی کے بہت سے مواقع ضائع ہو رہے ہیں اور اسی لیے خطے میں ایک نئے اقتصادی معاہدے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، گذشتہ تقریباً ایک عشرے میں یہ کسی انڈین وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان ہو گا اور توقع تھی کہ شاید اس دورے کے سبب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری میں کمی واقع ہوگی۔ لیکن پھر گذشتہ ہفتے نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہہ دیا تھا کہ ’میں وہاں انڈیا، پاکستان تعلقات پر بات چیت کرنے نہیں جا رہا۔ میں وہاں ایس سی او کے اچھے رکن کے طور پر جا رہا ہوں۔

اسی طرح پاکستانی وزیرِ دفاع انڈین وزیرِ خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’ہم تو بین الاقوامی فورمز پر آمنا سامنا ہونے کے باوجود یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانا پڑے۔‘ تاہم اس کے باوجود اسلام آباد میں سفارتی حلقے اس امکان کا اظہار کر رہے ہیں کہ شنگھائی کانفرنس دونوں ملکوں کے مابین سرد مہری کا شکار تعلقات بہتر کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف مہمان وفود کے سربراہوں سے دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے۔ اس بیان میں خاص طور پر انڈین وزیرِ خارجہ سے ملاقات کا تو ذکر نہیں لیکن ایسے اجلاسوں میں کم از کم دو ممالک کے حکام کے درمیان مصافحہ عام سی بات ہے۔ اس امکان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ بھارت پاکستان میں فروری میں ہونے والی چیمپینز ٹرافی میں شرکت کے لیے اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیج دے گا۔

دوسری جانب جیو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات بہتر ہونے چاہییں، لیکن شنگائی کانفرنس جیسی میٹنگز میں کوئی بھی ممالک اپنے باہمی تعلقات پر گفتگو نہیں کرتے۔ اس سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی صحافی برکھا دت کو لاہور میں اپنی رہاش گاہ پر انٹرویو میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنی چاہیے چونکہ یہی دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی بہتر ہے۔

خیال رہے اس سے قبل 2015 میں اُس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئی تھیں۔ سشما سوراج کے اس دورے کے کچھ ہی دنوں بعد انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے روس کے دورے سے واپسی پر افغانستان کے راستے انڈیا آتے ہوئے اچانک لاہور کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی اس وقت کے پاکستانی وزیرا‏عظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس کے بعد 2016 میں اس وقت کے انڈین وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سارک کے اجلاس کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔

لیکن پٹھان کوٹ میں انڈین فضائی اڈے پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑتے گئے اور پھر 2019 میں دونوں ممالک ایک باقاعدہ جنگ کے اس وقت قریب آئے جب کشمیر کے آسمانوں پر انڈیا اور پاکستان کے جنگی جہازوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپ ہوئی۔ پاکستان اور انڈیا برسوں سے ایک دوسرے پر دہشتگردی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں بھی انڈیا کی جانب سے پاکستان میں اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں دراندازی اور دہشتگردی کو ہوا دینے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ انڈیا نہ صرف بلوچستان میں بلوچ علیحدگی کو مدد فراہم کرتا ہے بلکہ حالیہ دنوں میں اس کے خفیہ ادارے پاکستان میں ’سابق کشمیری عسکریت پسند‘ شخصیات کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ دونوں ہی ممالک ان الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کر چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید تب خراب ہوئے جب اگست 2019 میں انڈیا نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے کشمیر کی خود مختار ریاست کی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ پاکستان نے اس کے بعد مؤقف اپنایا کہ انڈیا سے مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آرٹیکل 370 کو بحال نہیں کر دیا جاتا۔ ایسے میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان شنگھائی کانفرنس کے دوران کشمیر پر اپنے موقف سے پھر کر بھارت کے ساتھ تعلقات بحالی کے لیے مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرائع کہتے ہیں کہ 2019 میں انڈین کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کے بعد سے انڈیا نے پاکستان کے ساتھ ’کم سے کم بات چیت کی پالیسی‘ اپنائی ہوئی ہے۔ اس حملے میں 40 سے زائد بھارتی فوجی جوان مارے گے تھے اور اس کا الزام جیش محمد پر عائد کیا گیا تھا۔ تب سے انڈیا کہتا ہے کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو ختم کیا جائے، اس کے بعد ہم دو طرفہ تعلقات پر بات کرنے کو تیار ہیں۔

دوسری جانب پاکستان نے بھی کشمیر کے حوالے سے بھارت کیساتھ ’بے لچک رویہ‘ اپنایا ہوا ہے اور مشکل ترین شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ جب تک انڈیا کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 اے بحال نہیں کر دیتا تب تک ہم ان کے ساتھ تجارتی یا سفارتی تعلقات بھی آگے نہیں بڑھائیں گے۔

اسلام آباد میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت نون لیگ کے سربراہ نواز شریف اس نظریے کے حامی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوں گے تو اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشت بہتر ہوگی بلکہ عوام کو بھی فائدہ ہو گا۔ شریف خاندان انڈیا کے ساتھ مضبوط کاروباری تعلقات چاہے گا۔ موجودہ حکومت بھینیہی چاہے گی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ جائیں۔ لیکن انڈیا کے نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ تھوڑا مشکل کام ہے کیونکہ بی جے پی کی حکومت تواتر سے پاکستان کو یہ بتاتی آ رہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات تب تک ممکن نہیں جب تک ’پاکستان دہشتگری بند نہیں کر دیتا۔‘

Back to top button