جھوٹی خبریں شیئرکرنے والے اب سائبرقانون کے تحت پکڑے جائیں گے
وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر شکنجہ کستے ہوئے فیک نیوز کے تدارک کے نام پر پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کے تحت جہاں جھوٹی خبریں اپ لوڈ کرنے والے پکڑ میں آئیں گے وہیں ایسی خبروں کو صرف لائک یا شئیر کرنے والوں کو بھی اپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی لوگ روایتی میڈیا سے ڈیجیٹل پر شفٹ ہو رہے ہیں، تاہم پاکستان میں اس حوالے سے آئے روز نئی نئی بندشیں لگائی جا رہی ہیں۔ حکومت کو فیک نیوز کے تدارک کیلئے اقدامات ضرور کرنے چاہیں لیکن اس بہانے سے سارے سوشل میڈیا پر شکنجہ کسنا بالکل مناسب نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ میں کی جانے والی حالیہ ترامیم کی منظوری کے بعد ایسے لوگ بھی پکڑے جائیں جو ایسی خبروں یا پوسٹوں کو لائک بھی کرینگے۔ ایسی پابندیوں سے بہتر ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کو مکمل ہی بند کردے تاکہ نہ لوگ کچھ کریں گے اور نہ کوئی مسئلہ ہو۔
خیال رہے کہ حکومت نے پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کا فیصلہ کرتے ہوئے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے مطابق سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلانے والوں کو تین سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ یا اُنہیں دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
نئے قوانین کے تحت سوشل میڈیا پر پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے متن میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرے گی جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی اور صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
بل کے متن کے مطابق اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا۔ پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی بھی ذمہ دار ہو گی۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی۔ ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا جن کی تعیناتی تین سال کے لیے ہو گی۔ اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے۔ بل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔
وفاقی حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024 کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا شکایات کونسل پانچ اراکین اور ایک ایکس آفیشو رکن پر مشتمل ہو گی۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی دستاویزات کے مطابق ترمیمی ایکٹ پر عمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبیونل قائم کرے گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹریبیونل سے رجوع کرے گی۔
بل کے متن کے مطابق ٹریبیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا۔ ٹریبیونل میں ایک صحافی اور سوفٹ ویئر انجینیئر بھی شامل ہو گا۔ ٹریبیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں کے اندر چیلنج کیا جا سکے گا۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسے مواد کے خلاف متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ سوشل میڈیا اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی آرمڈ فورسز، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بھی بلاک کر سکے گی۔
مبصرین کے مطابق پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم آئی ٹی کے شعبے کی ترقی اور ممکنہ خطرات دونوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ ’ان ترامیم میں طاقت کے غلط استعمال کا خطرہ موجود ہے۔ ’قابل اعتراض مواد‘ جیسے مبہم اصطلاحات اور پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کے اختیارات تخلیقیت کو محدود اور آزادی اظہار کو متاثر کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ’اس ترمیمی بل کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا پر مزید کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘ ناقدین نے ترمیمی بل کو ‘پنجاب ڈیفیمیشن لاء’ کی طرز کا قانون قرار دیا ہے جن کے ذریعے نئی تحقیقاتی ایجنسی اور اتھارٹی کا قیام اور پھر سوشل میڈیا ایپس کی رجسٹریشن کی شکل میں اُن پر حکومت اور اداروں کا کنٹرول بڑھایا جائے گا۔
دوسری جانب پی ایف یو جے کے مطابق پیکا ایکٹ میں ترامیم ملک میں میڈیا، سوشل میڈیا اور صحافتی برادری کو دبانے کی دانستہ کوشش ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے پیکا ترمیمی بل کو دھوکا، آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی اور آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا ہے اور اس کی ہر جگہ مخالفت کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔