کیا نیب دبئی میں ملک ریاض کے پراجیکٹ کو فلاپ کرنا چاہتا ہے؟

معروف پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے چئیرمین ملک ریاض حسین کے قریبی ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے حال ہی میں انکے خلاف جاری کردہ پریس ریلیز کا بنیادی مقصد انکے دبئی میں شروع ہونے والے نئے تعمیراتی پراجیکٹ کو خراب کرنا پہنچانا ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے گا۔
یاد رہے کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کی ان بااثر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ طاقتور ترین فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے قائدین پر یکساں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ آصف زرداری ہوں، نواز شریف پوں یا پھر عمران خان، ان کا ان تینوں شخصیات کے ساتھ ذاتی تعلق ہے۔ شاید اسی لیے حکومتیں بدلتی رہیں لیکن ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن پھلتا پھولتا رہا۔
لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے ملک ریاض کی قسمت کے ستارے گردش میں ہیں۔
حال ہی میں قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ملک ریاض عدالتی مفرور ہیں۔ ساتھ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں جب کہ نیب کا دعوہ ہے کہ ’حکومتِ پاکستان قانونی چینلز کے ذریعے ملک ریاض کی پاکستان حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات کے حکام سے رابطے میں ہے۔
ایسے میں بی بی سی اردو نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا نیب قانونی طور پر شہریوں کو کسی غیرملکی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری سے روک سکتا ہے اور کیا ملک ریاض کو قانونی راستوں کے ذریعے عرب امارات سے پاکستان لایا جا سکتا ہے؟ لیکن ان سوالوں کے جواب جاننے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ ملک میں طاقتور ترین شخصیت سمجھے جانے والے ملک ریاض کے ستارے تب گردش میں آئے جب نیب نے عمران خان کے خلاف ایک 190 ملین پاؤنڈز کیس کی تحقیقات شروع کیں۔ عمران پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے ملک ریاض کے ضبط شدہ 190 ملین پاؤنڈز پاکستانی حکومت کے اکاؤنٹ میں ڈالنے کی بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں ڈال دیے جس میں ملک ریاض نے ایک کیس واجب الادا رقم جمع کروانا تھی۔ نیب نے مزید الزام لگایا کہ ملک ریاض نے اس رقم کے بدلے عمران خان کو القادر ٹرسٹ کے نام پر جہلم میں ساڑھے چار سو کنال زمین عطیہ کر دی۔ حالانکہ عمران خان اور ملک ریاض دونوں نے اس الزام کی تردید کی تھی لیکن عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو اس کیس میں لمبی قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔
احتساب عدالت اس کیس میں ملک ریاض کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر مفرور قرار دے چکی ہے۔ ملک ریاض کا دعوی ہے کہ انہیں عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز کیس میں وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ملک ریاض نے حال ہی میں میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک تحریری بیان میں واضح کیا ہے کہ ’میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا، آج بھی یہ فیصلہ ہے کہ چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔‘ انھوں نے نیب کے الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انہیں بلیک میل کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ ’میں ابھی ضبط کر رہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ یہ مت بھولنا کہ پچھلے 30 سال کے سب راز میرے پاس ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں۔‘
ملک ریاض کے قریبی ذرائع کا دعوی ہے کہ نیب کی پریس ریلیز ان کے دبئی میں شروع کیے جانے والے تعمیراتی پراجیکٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ یاد ریے کہ بحریہ ٹاؤن کے منصوبے پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور نواب شاہ میں موجود ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی ویب سائٹ کے مطابق ریئل سٹیٹ کمپنی دبئی ساؤتھ میں رہائشی اور تجارتی تعمیرات پر مشتمل ایک بڑا پراجیکٹ شروع کر چکی ہے جو المکتوم ایئرپورٹ کے قریب واقع ہے۔ بحریہ ٹاؤن دبئی میں ایک بنگلے کی قیمت ڈھائی کروڑ سے 50 کروڑ روپے تک ہے جبکہ وہاں پلاٹ کی قیمت ڈیڑھ کروڑ سے لے کر 10 کروڑ روپے تک ہے۔ بحریہ ٹاؤن کی ویب سائٹ کے مطابق غیر ملکی شہری بھی دبئی کے منصوبے میں پراپرٹی خرید سکتے ہیں۔یہ بھی کہا گیا یے کہ پاکستان، انڈیا، امریکہ اور برطانیہ میں مقیم افراد رجسٹریشن کروا کر دبئی جیسے خوبصورت شہر میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع حاصل کر سکتے ہیں۔’
ایسے میں سوال یہ یے کہ نیب کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ بی بی سی اردو نے نیب کے ایک ترجمان سے پوچھا کہ کیا دبئی میں ملک ریاض کا نیا پراجیکٹ غیرقانونی ہے اور کیا نیب قانونی طور پر پاکستانی شہریوں کو اس پراجیکٹ میں سرمایہ کاری سے روک سکتا ہے؟
جواب میں نیب ترجمان نے کہا کہ ’چونکہ ملک ریاض پر پاکستان میں بے قاعدگی کا الزام ہے اس لیے وہ دبئی میں بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
’ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ایک مفرور ملزم کے پراجیکٹ کے لیے پیسہ پاکستان سے جا رہا ہے جو کہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔‘۔
دوسری جانب وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے نیب کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا یے کہ ’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ نیب کی جانب سے پریس ریلیز جاری ہونے کے باوجود دبئی میں پروجیکٹ لانچ کیے جا رہے ہیں۔‘ انھوں نے عدالت کی جانب سے ملک ریاض کو مفرور قرار دیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ اپنا دفاع کر سکتے تو آپ کورٹ کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تاہم ماضی میں نیب کے ساتھ بطور ڈپٹی پراسیکیوٹر منسلک رہنے والے والے وکیل منصف جان کہتے ہیں کہ پاکستانی شہریوں کی قانونی ذرائع کے ذریعے بحریہ ٹاؤن دبئی یا کسی اور غیر ملکی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کو قانونی طور پر منی لانڈرنگ نہیں کہا جا سکتا۔
انکا کہنا ہے کہ اگر کوئی پاکستانی دبئی میں رہتا ہے، وہیں کماتا اور وہاں ہی سرمایہ کاری کرتا ہے تو یہ منی لانڈرنگ نہیں ہے۔ اگر کوئی پاکستان میں مقیم شہری قانونی طریقے کے ذریعے ٹیکس ادا کرنے کے بعد قانونی طریقے سے سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اسے بھی منی لانڈرنگ نہیں قراد دیا جا سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ صرف اس صورت میں اسے منی لانڈرنگ کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے غیر قانونی طریقہ کار، جیسے حوالہ یا ہنڈی، کے ذریعے باہر پیسے بھیجے گئے ہوں۔
۔