آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے حکومت کے پاس کونسی 3 آپشنز ہیں؟
وفاقی حکومت نے ہر صورت 25 اکتوبر سے قبل 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا فیصلہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کو ثابت کرنے کیلئے پلان اے بی اور سی بنا لیا ہے تاکہ اس بار اسے آئینی ترمیم کہ منظوری میں ناکامی پر ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دو تہائی اکثریت کے حصول کیلئے پلان اے کے مطابق جے یو آئی سے اتفاق رائے کر کے مولانا کی حمایت سے نمبر گیم پوری کی جائے گی جس کیلئے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس مشن میں ناکامی پر حکومت مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکین سے نمبر پورے کرنے کی کوشش کرے گی جس کیلئے سپیکر قومی اسمبلی الیکشن کمیشن کو دو خط بھی لکھ چکے ہیں کہ ترمیمی الیکشن ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو مخصوص سیٹیں الاٹ کی جائیں اس کوشش میں ناکام ہونے پر حکومت آزاد اراکین کے ووٹوں سے آئینی ترمیم منظور کروا لے گی۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے آئینی ترمیم کی منظوری کا حتمی فیصلہ کر لیا ہےاسے ہر صورت 25 اکتوبر سے قبل عملی جامہ پہنا دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ آئینی عدالتوں کے قیام سمیت عدالتی اصلاحات پر مبنی 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ حکومت نے تیار کر رکھا ہے، تاہم ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ نمبر پورے نہ ہونے اور اتحادی جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے ستمبر میں ترمیم پارلیمنٹ میں پیش نہ کی جا سکی، اب سپریم کورٹ آف پاکستان سے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ مطلوبہ نمبر حاصل ہو گئے ہیں اور آئینی ترمیم ایس سی او کانفرنس کے بعد منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔
واضح رہے کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی کے 336 کے ایوان میں 224 اور سینیٹ کے 96 کے ایوان میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے، جبکہ اس وقت قومی اسمبلی میں 214 اور سینیٹ میں 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے، قومی اسمبلی میں مزید 10 اور سینیٹ میں 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن اگر مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ جاری کر دیتا ہے اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاتیں تو قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کے بغیر بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور کل نشستوں کی تعداد 230 ہو جائے گی، جبکہ 336 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔اگر پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں دیگر پارٹیوں میں تقسیم نہیں کی جاتیں تو اس صورت میں جمعیت علمائے اسلام کی 8 نشستوں اور 2 پی ٹی آئی یا دیگر ارکان کی حمایت سے حکومت مطلوبہ نمبرز حاصل کر لے گی اور آئینی ترمیم منظور کرا لی جائے گی۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت یعنی 64 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس وقت حکمران اتحاد کو پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 اور 4 آزاد ارکان سمیت مجموعی طور پر 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت پوری کرنے کے لیے ان کو مزید 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
اس وقت سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 17، جمیعت علما اسلام کے 5، اے این پی کے 3، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، مسلم لیگ ق کا ایک ایک جبکہ ایک آزاد رکن موجود ہے۔ ان تمام ارکان کی تعداد 31 ہے۔اگر حکومت سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے 5 ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل بھی کر لیتی ہے تو اسے آئینی ترمیم کے لیے مزید 5 ارکان کی ضرورت ہو گی، اور 63اے کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کے کوئی سے 5 ارکان کے ووٹوں سے سینیٹ میں بھی حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی پارٹی پوزیشن لسٹ کے مطابق حکمراں اتحاد میں ن لیگ کے پاس اس وقت 87 جنرل نشستیں، خواتین کی 20 اور 4 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت مجموعی طور پر 111 نشستیں ہیں۔دیگر اتحادیوں میں پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں 54 جنرل، 13 خواتین اور 2 اقلیتی نشستوں کے ساتھ کل تعداد 69 ہے، ایم کیو ایم 5 مخصوص نشستوں کے ساتھ 22، مسلم لیگ ق کی 1 مخصوص نشست کے ساتھ 5 نشستیں، استحکام پاکستان پارٹی کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ 4 نشستیں جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 60 خواتین اور 10 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے بالترتیب 40 اور 7 نشستیں پہلے سے سیاسی جماعتوں کو الاٹ کردی تھیں کیونکہ اس وقت تک سنی اتحاد کونسل کے کوٹے میں آنے والی 23 نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ الیکشن کمیشن اب اگر پی ٹی آئی کے کوٹے کی 23 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیتا ہے تو 14 نشستیں ن لیگ، 6 نشستیں پیپلز پارٹی جبکہ 3 نشستیں جمیعت علما اسلام کو دی جائیں گی۔