جنرل عاصم منیر کے "ہوپ ڈاکٹرائن” کے تحت کیا ہونے جا رہا ہے؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے بظاہر غیر مقبول ہونے سے ایک سیاسی خلا پیدا ہوا ہے جسے اب اسٹیبلشمنٹ ایک نئی جماعت کے ذریعے پُر کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔ یہ نئی جماعت شاید آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ‘ہوپ’ ڈاکٹرائن کے تحت ترقی پسند اور محب وطن بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی، جو کہ پی ٹی آئی کے بیانیے کو موئثر طریقے سے کاؤنٹر کر سکے۔
اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں سینیئر اینکر پرسن سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان کا سیاسی منظرنامہ ایک نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے، جہاں اسکی بڑی سیاسی جماعتیں یا تو زوال پذیر ہیں یا اپنی اہمیت کھو رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی ایک زمانے میں سندھ کے علاوہ پنجاب میں بھی مضبوط سیاسی قوت تھی، لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد سے یہ جماعت پنجاب میں اپنی پوزیشن کھو چکی ہے۔ آصف علی زرداری کی چالاکی اور بلاول بھٹو کی جوان توانائی کے باوجود، پی پی پی پنجاب میں خود کو بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ نواز نے تقریباً تین دہائیوں تک پنجاب میں بے مثال مقبولیت انجوائے کی اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان بار بار بدلتی رہی، لیکن اب نون لیگ اپنی عظمت کھو چکی ہے۔ اس کا بیانیہ تب ٹوٹنے لگا جب اس نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک غیر فطری اتحاد کیا، جس سے اس کے حامیوں کی نظروں میں اس کی ساکھ متاثر ہوئی۔ نواز کیگ کی قیادت نے یہ بڑی پالیسی چینج اپنے کارکنان سے مشورہ کیے بغیر کی، اور یہ وہ نقطہ تھا جہاں سے پارٹی کا زوال شروع ہوا۔ اس میں مزید کمی نواز شریف کی طویل غیر حاضری اور دوسرے درجے کی نونی قیادت کی ناکامی نے پیدا کی۔
سہیل وڑائچ کے مطابق آج تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے، حالانکہ اس کے رہنما عمران خان گزشتہ ایک سال سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ پی ٹی آئی سیاسی بیانیے پر حاوی ہے، لیکن آزاد اور منصفانہ انتخابات میں اس کی کامیابی ممکنہ طور پر عارضی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو تنظیمی نظم و ضبط، حکومتی صلاحیت، اور اسٹریٹجک وژن کی کمی اسے جلد زوال کی طرف لے جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی عوام میں مقبولیت ناقابلِ انکار ہے، لیکن ریاستی اداروں کے ساتھ اس کے ابتر تعلقات اور اندرونی انتشار اس کی حکومت کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہیں۔ لہٰذا، مختصر یہ کہ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں چند سالوں میں سیاسی بے وقعتی کی طرف گامزن دکھائی دیتی ہیں۔ اس زوال سے سیاسی خلا پیدا ہوگا، جسے قدرتی طور پر کوئی نئی قوت یا قیادت پُر کرے گی۔ یہ کسی نئی سیاسی جماعت یا کسی نئے رہنما کی شکل میں سامنے آ سکتی ہے، جو پرانی اور زوال پذیر قوتوں کے ٹوٹے ہوئے دھڑوں سے تشکیل پائے گی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک انسانی زندگی کے مراحل جیسا سفر طے کرتی ہیں پیدائش، عروج، اور پھر زوال۔ ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، پی ایم ایل-ق، اور پی پی پی پیٹریاٹس جیسی جماعتیں کبھی طاقتور تھیں لیکن اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کا زوال اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اس وقت تک متعلقہ رہتی ہیں جب تک وہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہیں۔
سینئیر صحافی کا کہنا یے کہ عمر، جسمانی ہو یا سیاسی، اس زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے بڑے سیاسی رہنماؤں میں نواز شریف 74 برس کے ہو چکے ہیں، شہباز شریف 72 برس کے ہیں، عمران خان بھی 72 سال کے ہیں، جبکہ آصف زرداری 69 برس کے ہیں۔ یعنی یہ سب قائدین اوسط پاکستانی عمر کراس کر چکے ہیں جو کہ تقریبا 68 برس ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں لمبی زندگی دے! لیکن اپنی دوسرے یا تیسرے لیول کی مضبوط قیادت نہ ہونے کے باعث یہ جماعتیں وجودی بحران کا شکار ہیں۔ پنجاب میں پی پی پی اور پی ایم ایل-ن کے زوال نے ایک خلا پیدا کیا ہے، جسے اسٹیبلشمنٹ پُر کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں نئی سیاسی قوتیں اکثر اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہوتی ہیں، جیسا کہ ق لیگ اور پیٹریاٹس، جو عوامی مگر ناپسندیدہ بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ پی ایم ایل-ن اور پی پی پی کے زوال پذیر اثر و رسوخ اور اسٹیبلشمنٹ کے اینٹی پی ٹی آئی موقف کو مکمل طور پر نہ اپنانے کی وجہ سے ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام قریب نظر آتا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول یہ نئی سیاسی جماعت شاید جنرل عاصم منیر کے ‘ہوپ’ ڈاکٹرائن کے تحت ترقی پسند اور محب وطن بیانیے کو فروغ دے، جو پی ٹی آئی کے بیانیے کا توڑ ہو۔ لیکن اس طرح کا مصنوعی طریقہ کار ماضی کی ناکامیوں کو دہرا سکتا ہے، کیونکہ ایسی جماعتیں اکثر عوامی حمایت سے محروم رہتی ہیں اور اپنی افادیت ختم ہونے پر بکھر جاتی ہیں۔
انکا کہنا یے کہ پی ایم ایل-ن کی موجودہ حالت خاص طور پر خراب ہے، اور اندرونی اختلافات نے اس کی مؤثر کارکردگی کو مزید متاثر کیا ہے۔ نواز شریف، جو پارٹی کے سربراہ ہیں، کا شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ تعلق کشیدہ ہے۔ کابینہ کی توسیع جیسے اہم فیصلے نواز شریف کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے التوا کا شکار ہیں، جس سے پارٹی کے سیاسی اور حکومتی ونگز کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ظاہر ہوتا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول شہباز شریف اور مریم نواز، جو پنجاب کی قیادت کر رہی ہیں، کے درمیان بھی کشیدگی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ خاندانی تعلقات کے باوجود، ان کی حکمت عملیوں میں اختلافات نے پارٹی کی یکجہتی کو نقصان پہنچایا ہے۔
ایک مثالی صورتحال میں، درمیانے طبقے کی قیادت میں ایک عوامی تحریک ابھر سکتی ہے جو روایتی جماعتوں کے زوال سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، زیادہ امکان یہی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک نئی جماعت کا قیام کرے گی، جو پی پی پی، پی ایم ایل-ن، اور پی ٹی آئی کے منحرف افراد پر مشتمل ہوگی۔
یہ نئی جماعت استحکام اور ترقی کو ترجیح دے گی اور پی ٹی آئی کی عوامیت پسندی کا مقابلہ کرے گی۔ تاہم، ایسی جماعت کی پائیداری کا دارومدار اس کی عوام سے حقیقی تعلقات قائم کرنے پر ہوگا ، ایک ایسا چیلنج جس نے ماضی میں ایسی جماعتوں کو ناکام کر دیا ہے۔
تحریک انصاف کی مرکزی قیادت احتجاج میں شامل کیوں نہ ہوئی؟
سینئیر صحافی کے مطابق پاکستان اس نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں اس کی بڑی سیاسی جماعتوں کی گرتی ہوئی مقبولیت ایک تلخ سچائی ہے۔ انکی سیاسی بقا کا انحصار تبدیلی، مطابقت، اور عوام کی امنگوں سے حقیقی تعلق بنانے پر ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں مستقبل قریب میں تشکیل دی جانے والی نئی سیاسی قوت ان عناصر کی حامل ہوگی یا ماضی کی ناکامیوں کو دہرا کر خود بھی ناکام ہو جائے گی۔