پاکستان کو اپنی نیوکلئیر شیلڈ بحال کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

بھارت نے جس دیدہ دلیری سے پاکستان کے مختلف شہروں پر میزائل اور ڈرون حملے کرتے ہوئے 36 انسانی جانیں لی ہیں اسکے بعد نیوکلئیر بموں سے لیس پاکستان پر لازمی ہو گیا ہے کہ وہ ان حملوں کا خوفناک ترین ردعمل دیتے ہوئے بطور ایک نیوکلیئر پاور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے بڑے شہروں میں میزائل اور ڈرون حملے کر کے اس کی نیوکلیئر ڈیٹرنس nuclear deterrence یا دفاعی ڈھال ہوا میں اڑا دی ہے جسے فوری طور پر بحال کرنے کے لیے خوفناک ترین جوابی حملے ضروری ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر میزائل اور ڈرون حملے کر کے اس کی نیوکلیئر طاقت کو کھلا چیلنج دے دیا ہے لہذا پاکستان کی جانب سے ایسا رد عمل آنا چاہیے جسے بھارت صدیوں یاد رکھے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند روز میں پاکستانی شہروں کی فضائی حدود میں انڈین بارود کی بُو نے دونوں ایٹمی ہمسائیوں کو ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ منگل اور بدھ کی درمیانی رات پاکستان کے اندر ہونے والے میزائل حملوں کے بعد جمعرات کی صبح بھی پاکستانیوں خاص طور پر لاہور کے باسیوں کے لیے مختلف تھی۔ علی الصبح لاہور کے حساس علاقے والٹن میں ہونے والے دھماکوں نے ہر طرف کھلبلی مچا کر رکھ دی۔ پھر پتہ چلا کہ یہ انڈیا کی جانب سے کیے جانے والے ڈرون حملے تھے۔ پھر جوں جوں دن گزرتا گیا یہ اطلاعات آنا شروع ہو گئیں کہ بھارتی ڈرون پاکستان کے مختلف شہروں کی فضاؤں میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ڈرونز یا تو خود پھٹ رہے تھے یا  پاکستانی دفاعی نظام کے ہاتھوں گر رہے تھے۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق دن بھر میں لگ بھگ 29 بھارتی ڈرون مار گرائے گئے۔ ان حملوں میں تین افراد جان سے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ ایسے میں ان پاکستانی عوام کی فرسٹریشن بڑھتی جا رہی ہے جو بھارت پر جوابی حملوں کا انتظار کر رہے تھے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے نیوکلئیر صلاحیت رکھنے والے پاکستان پر میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد اب یہ تاثر بن رہا ہے کہ بھارت جب چاہے پاکستانی شہروں پر حملے کر سکتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کی nuclear deterrence نیوکلئیر ڈیٹرنس کہاں گئی خصوصا جب پاکستان نے بھی بھارت کے مقابلے میں ایٹمی دھماکے کر کے اپنے دفاع کو ’ناقابل تسخیر’ بنا دیا تھا۔ چنانچہ سب سے خطرناک ترین سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب بدل چکا ہے اور بھارت پاکستان کو نیوکلیئر ریاست تسلیم کرنے سے انکاری ہو گیا ہے؟ دفاعی تجزیہ کاروں کی جانب سے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ نئی صورت حال میں پاکستان کو ’نیا ڈیٹرنس‘ تیار کرنا ہو گا۔

سابق پاکستانی سفارت کار اور دفاعی تجزیہ کار ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ انڈیا نے پاکستان کے شہری علاقوں میں میزائل حملے کر کے اس ڈیٹرنس کو چیلنج کر دیا ہے جو اس نے 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد حاصل کی تھی اور خود کو بھارت کے ہم پلہ ثابت کر دیا تھا۔ اب سوال یہ نہیں کہ نقصان کتنا ہوا اور کتنے لوگ مارے گئے۔ سوال یہ بھی نہیں کہ بھارت کی جانب سے حملے کہاں ہوئے اور کہاں نہیں۔ اب سوال صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت کا ہے جس کے لیے اسے اپنا ڈیٹرنس لیول دوبارہ بحال کرنا ہو گا۔  ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ اور کوئی دوسری صورت نہیں نظر آ رہی ہے۔

پاک بھارت حملوں کے دوران نواز شریف پرسرار طور پر خاموش کیوں ؟

ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ جس طرح بھارتی ڈرونز پاکستان کی فضاؤں میں دندنا رہے ہیں اس کے پیش نظر پاکستان کو اپنا دفاعی لیول واپس اس جگہ پر لے کر جانا ہے جو 6 مئی 2025 کی رات انڈیا کی جانب سے ہونے والے فضائی حملوں سے پہلے تھا۔ پاکستان جب تک پوری طاقت کے ساتھ بھارت کو خوفناک ترین جواب نہیں دے گا تب تک خطے میں طاقت کا توازن بحال نہیں ہو پائے گا جو اس وقت بھارت کے پلڑے میں جا چکا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ وہ چھتری جس کو ہم ڈیٹرنس لیول کہتے ہیں وہ آپ کو انڈیا کے شر سے محفوظ بناتی ہے۔ اس چھتری میں بڑے چھید ہو گئے ہیں  جنہیں بھرنے کے لیے بھارت کی چھتری میں جوابی چھید کرنا ضروری ہیں۔ ایسا کرنا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے ورنہ بھارت اسے مشرقی پاکستان کی طرح نگل جائے گا۔

دوسری جانب سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی حملوں کا جواب لازمی آئے گا کیونکہ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی دوسری آپشن نہیں۔ انکے مطابق پاکستانی فوج کے ترجمان نے جو موقف اپنایا ہے وہ بڑا واضح ہے کہ انڈیا کو حملوں کا جواب دینے کے لیے وقت اور جگہ کا تعین ہم خود کریں گے۔ پاکستان جب بھی جواب دے گا تو یہ طے ہو جائے گا کہ اب آگے کی کہانی کس رخ جائے گی۔ اس لیے ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن یہ اب طے ہے کہ پاکستانی نیوکلئیر ڈیٹرنس یا شیلڈ اب دوبارہ نئے ماحول کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہو گی۔ اس کے بغیر پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ باقی سارے راستے اس نیوکلئیر ڈھال کی بحالی کے بعد نکلیں گے۔ لیکن اسے بحال کرنے کے لیے پاکستان کو سخت ترین جواب دینا ہوگا۔

Back to top button