قاضی فائز عیسی کے خلاف فیصلہ دینے والے چیف جسٹس آفریدی کون ہیں؟

فاٹا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے چیف جسٹس یحیی آفریدی کے عدالتی کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو یہ تائثر ملتا ہے کہ وہ ایک آزاد منش جج ہیں جو نہ تو کچھ دیگر سیاسی ججز کی طرح پارٹی بازی کرتے ہیں اور نہ کسی غیر ضروری تنازعے میں پڑتے ہیں، اسی لیے ماضی میں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف بھی فیصلہ دیا اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں سے بھی اختلاف کیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے فائزعیسیٰ کی درخواست کو مستردکیاتھا

یاد ریے کہ جسٹس یحیی آفریدی نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ایما پر صدر علوی کی جانب سے دائر کردہ صدارتی ریفرنس میں قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا، تاہم حال ہی میں وہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ساتھ اُن چار ججوں میں شامل تھے جنھوں نے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کے

فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کرلیاتھا

یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کے اس سات رکنی بینچ سے بھی خود کو الگ کر لیا تھا جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز کی جانب سے لکھے گئے خطوط کی بنیاد پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے از خود نوٹس لیتے ہوئے تشکیل دیا تھا۔ ان خطوط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز نے الزام عائد کیا تھا کہ خفیہ ادروں کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے ججز پر دباؤ ڈالتے ہیں۔

یحییٰ آفریدی از خود نوٹس کے معاملے پر ایک الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں

یحییٰ آفریدی از خود نوٹس کے معاملے پر ایک الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں جب جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تو اگلے ہی روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک واقعے پر از خود نوٹس لیا اور اس تین رکنی بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی حصہ بنا دیا، تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہ کہہ کر اس بینچ میں شمولیت سے انکار کردیا کہ ان کا از خود نوٹس سے متعلق اپنا نقطہ نظر ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کے اس بیان پر اس وقت کے چیف جسٹس نے خفگی کا اظہار کیا تھا۔

پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا گیا

مسلم لیگ نون کی جانب سے جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا گیا تو جسٹس یحییٰ آفریدی بحیثیت پشاور ہائی کورٹ جج اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی کر رہے تھے۔ انھوں نے پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کروا دیے تھے تاکہ جب تک اس کیس کا فیصلہ نہ ہو جائے، وہ ملک سے باہر نہ جاسکیں، تاہم اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس فیصلے کے خلاف درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے خصوصی عدالت کے حکم کو معطل کر دیا تھا اور سابق فوجی صدر کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جب سابق وزیر اعظم عمران خان کو 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا تو اس کے بعد مئی 2022 میں پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان نے اپنے وکلا کے ذریعے سپریم کورٹ کو انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کرانے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن تحریک انصاف نیا ایسا کرنے کی بجائے اسلام اباد میں توڑ پھوڑ کی اور درختوں کو بھی آگ لگا دی تھی۔

عمر عطا بندیال کے پانچ رکنی بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل تھے

اس وقت کا حکمران اتحاد یہ معاملہ سپریم کورٹ لیکر گیا تو تب کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پانچ رکنی بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل تھے۔ اس معاملے کو نمٹاتے ہوئے چیف جسٹس بندیال سمیت چار ججز نے تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی، تاہم جسٹس یحییٰ افریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ چونکہ پی ٹی آئی کی قیادت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروانے کے باوجود وعدہ خلافی کی، اس لیے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی بھٹو ریفرنس کے لارجربنیچ کاحصہ تھے

اسکے علاوہ جسٹس یحییٰ آفریدی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے علاوہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا بھی حصہ تھے۔ جسٹس آفریدی قانونی برادری میں ایک پیشہ ور، صاف گو اور منصف مزاج جج کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جو وکلا کے ساتھ بھی غیر ضروری بحث نہیں کرتے۔

نامزد چیف جسٹس مخصوص نشستوں کے کیس میں نمایاں تھے

ان کی شخصیت کا یہ پہلو فل کورٹ بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے دوران بھی واضح طور پر نمایاں نظر آیا جب بینچ کے دیگر ارکان وکلا پر سوالات کی بوچھاڑ اور روسٹرم پر کھڑے وکیل کے ساتھ عملی طور پر بحث کر رہے تھے تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ وکلا کو یہ اعتماد بخشا کہ وہ جس انداز میں چاہیں اپنا کیس پیش کریں۔

جسٹس آفریدی کا تعلق آفریدی قبیلے کی شاخ آدم خیل سے ہے

23 جنوری 1965 کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہونے والے جسٹس آفریدی کا تعلق آفریدی قبیلے کی شاخ آدم خیل سے ہے اور وہ کوہاٹ کے گاؤں بابری بانڈہ کے رہائشی ہیں، وہ عوامی خدمت کی روایت سے جڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسٹس آفریدی نے اپنی اسکولنگ اور انڈرگریجویٹ ڈگری کے لیے ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کی سند حاصل کی۔

جسٹس آفریدی نے جیسس کالج سے ایل ایل ایم مکمل کیا

کامن ویلتھ اسکالرشپ سے نوازے جانے کے بعد جسٹس آفریدی نے کیمبرج یونیورسٹی کے جیسس کالج سے ایل ایل ایم مکمل کیا، اس کے بعد انہیں لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف لیگل اسٹڈیز میں ینگ کامن ویلتھ لائرز کے اسکالرشپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

سابقہ فاٹا اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے پہلے جج تھے

جسٹس آفریدی کو 2010 میں پشاور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا تھا اور 15 مارچ 2012 کو ہشاور ہائی کورٹ کا جج بنانے کی تصدیق کی گئی۔ جب 30 دسمبر 2016 کو انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف اٹھایا تو وہ سابقہ فاٹا اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے پہلے جج تھے جو اس عہدے پر فائز ہوئے، انہوں نے 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ میں اپنی ترقی تک اسی عہدے پر کام کیا اور اب وہ سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس بن جائیں گے۔

Back to top button