مولانا فضل الرحمٰن کو ٹف ٹائم دینے والے حافظ حسین احمد کون تھے؟

20مارچ 2025کو طویل علالت کے بعد دار فانی سے کوچ کرنے والے’دھیمے لہجے اور مدلل گفتگو‘ والے حافظ حسین احمد کو جے یو آئی ف میں مولانا فضل الرحمٰن کا بڑا ناقد شمار کیا جاتا تھا۔ اپنی بے باک گفتگو کی وجہ سے حافظ حسین احمد کئی دفعہ پارٹی قیادت کے تعاب کا نشانہ بھی بنے۔2020 میں جب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بنائی گئی تو حافظ حسین احمد نے نواز شریف سے اتحاد پر پارٹی قیادت پر سخت تنقید کی جس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے نہ صرف انہیں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے ہٹادیا بلکہ ان کی رکنیت بھی ختم کر دی۔
14اگست 1951 کو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے حافظ حسین احمد کا تعلق بلوچستان کے ضلع مستونگ کے ایک دینی و سیاسی خانوادے سے تھا۔ان کے والد مولانا عرض محمد ایک معروف عالم، سیاستدان اور ریاست قلات کے دور میں پارلیمان دار العوام کے رکن تھے۔
’حافظ حسین احمد کو سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا۔ بلوچستان صوبے میں سیاسی فیصلوں میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ صوبائی اسمبلی ہو یا وفاق کی سیاست میں اہم فیصلے ان کی مشاورت کو پارٹی میں اہم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن زندگی کے آخری ایام میں گردوں کی بیماری کے باعث وہ زیادہ متحرک نہیں تھے۔‘
دوران طالب علمی حافظ حسین احمد جے یو آئی کی طلبہ تنظیم کا حصہ رہے۔ انھوں نے باقاعدہ سیاست کا آغاز 1973 میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے کیا۔
حافظ حسین احمد جے یو آئی میں کئی صوبائی اور مرکزی عہدوں پر رہے۔ انہوں نے مرکزی نائب صدر، مرکزی سیکریٹری جنرل، مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور مرکزی ترجمان جیسے اہم پارٹی عہدوں پر بھی کام کیا۔
وہ دو مرتبہ قومی اسمبلی اور دو بار سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ 1988 میں پہلی بار اور 2002 میں دوسری بار مستونگ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2002 کی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس دوران پارلیمانی سیاست میں نمایاں رہے۔
حافظ حسین احمد تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی، قومی اتحاد، تحریک بحالی جمہوریت سمیت جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے چلنے والی کئی تحریکوں میں فعال رہے اور متعدد بار جیل بھی گئے۔
2006 میں حقوق نسواں بل کی منظوری کے خلاف حافظ حسین احمد نے پارٹی پالیسی کے برعکس ذاتی طور پر احتجاجاً استعفا دے دیا تھا۔
اسی دوران ان کے پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمان سے تعلقات میں کشیدگی آ گئی جو ان کی زندگی کے آخری برسوں تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔
حافظ حسین احمد کے قریبی ساتھیوں کے مطابق’ حافظ حسین احمد ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ وہ اپنی رائے کو کھل کر بیان کرتے تھے اور مولانا فضل الرحمان پر بھی تنقید سے باز نہیں آتے تھے۔’ اپنے اس مزاج کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار بھی رہے یہاں تک کہ انہیں کئی بار پارٹی سے نکالا بھی گیا۔‘
حافظ حسین احمد پارٹی کے اندر پالیسیوں اور ’آمرانہ طریقوں‘ پر سوالات اٹھاتے تھے۔وہ پارٹی میں موروثیت کے خلاف اور شفاف انتخابات کے حامی تھے۔ انہوں نے پارٹی کو فضل الرحمن سے منسوب کرکے جے یو آئی (ایف ) کے نام سے رجسٹریشن کرانے پر بھی اختلاف کیا۔
2020 میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جب نواز شریف نے فوجی قیادت پر تنقید کی تو حافظ حسین احمد نے مخالفانہ بیان دیا۔انہوں نے نواز شریف سے اتحاد پر پارٹی قیادت پر بھی تنقید کی جس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے انہیں پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے عہدے سے ہٹایا اور پھر رکنیت بھی ختم کر دی۔
اس کے بعد حافظ حسین احمد مولانا محمد خان شیرانی اور جے یو آئی کے فضل الرحمان مخالف رہنماؤں کے ساتھ مل کر محاذ کھولا تاہم جب مولانا محمد خان شیرانی نے الگ جماعت بنائی تو حافظ حسین احمد نے ان سے بھی راہیں جدا کرلیں۔
2022 میں بالآخر مولانا فضل الرحمان نے کوئٹہ آکر انہیں منایا تاہم انہیں 2024 کے انتخابات میں انھیں ٹکٹ دیا گیا اور نہ ہی انھیں دوبارہ پارٹی میں کوئی عہدہ ملا۔
حافظ حیسن احمد کے قریبی ساتھیوں کے مطابق’ حافظ حسین احمد پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اختلاف رائے کے قائل تھے۔ ان کی ہمیشہ ترجیح پارٹی رہی اس لیے اختلافات اور کئی بار نکالے جانے کے باوجود وہ اپنی موت تک جے یو آئی سے جڑے رہے۔‘
حافظ حسین احمد گفتگو اور مکالموں میں کاٹ دار جملوں، حاضر جوابی اور برجستگی کے لیے جانے جاتے تھے۔ اسی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنے جداگانہ انداز کی وجہ سے بھرپور توجہ حاصل کرتے تھے۔ مبصرین کے مطابق حافظ حسین احمد نے اپنی سادہ طبیعت اور دھیمے لہجے سے مدلل گفتگو کے ذریعے پورے بلوچستان میں جے یو آئی کو متحرک رکھا ہوا تھا۔‘حافظ حسین احمد نے پارٹی کے اندر رہ کر ہمیشہ اپنا موقف واضح کیا اور وہ کئی فیصلوں پر تنقید بھی کرتے تھے۔ اختلافات کے باوجود انہوں نے جے یو آئی کبھی نہیں چھوڑی۔