مریم نوازکی ایک سال کی کارکردگی شعبدہ بازی کیوں قرارپائی؟

تحریک انصاف نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے اقتدار کے پہلے سال کو کرپشن،نااہلی اور شعبدہ بازی کی روشن مثال قرار دے دیا۔ پی ٹی آئی نے پنجاب میں نون لیگ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے وائٹ پیپر جاری کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے جاری کردہ وائٹ پیپر میں مریم نواز کے منصوبوں کو پی ٹی آئی کی نقل کا سال قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ مریم نواز سرکار نے کوئی کام نہیں کیا۔ نااہل پنجاب حکومت ایک سال کے دوران کرپشن اور شعبدہ بازی کے ساتھ ساتھ صرف تحریک انصاف کے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگانے میں مصروف رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کردہ وائٹ پیپر میں”حقائق اور اعداد و شمار” کے ساتھ دعویٰ کیا گیا ہےکہ مریم نواز کی حکومت نے پی ٹی آئی دور کے بیشتر منصوبے نقل کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے "جرنلسٹ ہاؤسنگ اسکیم فیز-II” کا آغاز کیا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صحافیوں کیلئے یہ اسکیم دراصل 10 دسمبر 2022 کو شروع کی گئی تھی اور اس کے لیے 700 کنال زمین بھی مختص کی گئی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ سال مریم نواز حکومت نے ممکنہ اثرات کو مد نظر رکھے بغیر نہ صرف "پنجاب ڈیفامیشن ایکٹ 2024” منظور کروایا، بلکہ اس قانون کی منظوری کو اپنا کارنامہ بھی بتایا ہے، یعنی لفظ چھیننا اور اظہار رائے پر قدغن لگانا انہوں نے اپنی کارکردگی میں دکھایا ہے جبکہ اس قانون کو صحافیوں نے "کالا قانون” قرار دیا بلکہ اس کے خلاف سخت احتجاج بھی کیا۔ حزب اختلاف نے پنجاب اسمبلی میں اس قانون میں 23 ترامیم پیش کیں، لیکن ان میں سے کسی کو بھی زیر غور نہیں لایا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مریم نواز حکومت نے لاہور پریس کلب کی گرانٹ کو 10 ملین سے بڑھا کر 50 ملین کرنے کا دعویٰ کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پہلے ہی یہ گرانٹ 5 ملین سے بڑھا کر 20 ملین کر چکی تھی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں کسان کارڈ اور زرعی قرضوں کے اجرا کا بھی دعویٰ کیا، لیکن حقیقت میں یہ سکیم پی ٹی آئی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2021 میں شروع کی تھی۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر نے پنجاب حکومت کے "سی ایم گرین پنجاب پروگرام” کے اعلان کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض "زرعی ایمرجنسی پروگرام” کی نقل ہے، جو پی ٹی آئی نے جنوری 2019 میں شروع کیا تھا۔اسی طرح پی ٹی آئی حکومت نے 2019 میں "انڈرگریجویٹ اسکالرشپ پروگرام” کے تحت 200,000 طلبہ کو 50,000 اسکالرشپس دی تھیں، جبکہ موجودہ حکومت نے اسے اپنا منصوبہ ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
ملک احمد خان بھچر نے مریم نواز کی حکومت کے "فری میڈیسن پروجیکٹ” کے دعوے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے نیشنل ہیلتھ کارڈ کے ذریعے پہلے ہی پورے پنجاب میں غریب افراد کے لیے مفت ادویات کی سہولت فراہم کی تھی۔ اپوزیشن لیڈر نے سی ایم ڈائیلاسز پروگرام، لیہ کلینک اسکیم، ایئر ایمبولینس سروس، ریسکیو 1122 کی توسیع، اور "اپنی چھت اپنا گھر” اسکیم کو بھی پی ٹی آئی حکومت کے منصوبوں کی نقل قرار دیا۔
اپوزیشن رہنماؤں نے پنجاب حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دوران اہم ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی ناکافی بجٹ مختص کیا، جن میں اعلیٰ تعلیم، نیشنل یونیورسٹی آف مری، "سی ایم روشن گھرانہ پروگرام”، ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنا، زراعت، سڑکوں کی تعمیر، "گارمنٹس سٹی” منصوبہ، اور تمام اضلاع میں کھیلوں کی سہولیات شامل ہیں۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب حکومت نے 40,000 لیپ ٹاپس، آٹزم بچوں کے لیے اسکول، اسپیشل ایجوکیشن پروگرام، اور مریم نواز شریف کینسر اسپتال جیسے اہم منصوبوں کے لیے بھی بجٹ میں کمی کی ہے۔
پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر میں پنجاب میں عوامی وسائل کے بے جا استعمال اور غیر ضروری حکومتی اخراجات پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے مریم نواز کے چیف منسٹر ہاؤس، وزارتی دفاتر، گاڑیوں، اور مہنگے پروٹوکول کے اخراجات کو عوامی وسائل کا ضیاع قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں موجودہ حکومت کو قانون کی حکمرانی کے فقدان، مہنگائی، کرپشن، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، میڈیا پر قدغن، اور جمہوریت کی پامالی جیسے معاملات پر بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ "پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کی نقل اور وسائل کے غلط استعمال نے پنجاب کی ترقی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔”