بلوچستان میں فوجی آپریشن کے اعلان پر عسکریت پسند خوش کیوں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ وفاق کی جانب سے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کے اعلان سے بلوچستان کے عسکریت پسندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ آپریشن کے ردعمل میں اب انہیں نئی افرادی قوت بھی ملے گی اور مزید بیرونی امداد بھی ملے گی۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی بھی خوش ہیں۔ بلوچستان کے تنازعے نے انہیں وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ بنایا۔ تنازع مزید بڑھے گا تو سرفراز بگٹی اور بلوچ عسکریت پسند دونوں کو مزید فائدہ ملے گا۔ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی قریب میں پہلا بڑا فوجی آپریشن 1916ء میں برطانوی فوج کے جنرل ڈائر نے کیا تھا۔ اسی ڈائر نے 1919ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دیا تھا۔ جنرل ڈائر کی کتاب ’’بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار‘‘ بتاتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں بلوچ قبائل جرمن حکومت کی مدد سے برطانیہ کے خلاف مزاحمت کو منظم کر رہے تھے لہٰذا اس مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے جنرل ڈائر نے برٹش بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کی سرحد پر ایک فوجی آپریشن کیا جس میں شیعہ سنی اختلاف کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

دوسرا بڑا آپریشن 1948ء میں خان آف قلات کے بھائی پرنس کریم کے خلاف ہوا۔ 13 نومبر 2024 کو سینئیر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں سرفراز بگٹی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا جس کے خلاف فوجی آپریشن نہیں۔ انکا کہنا ا ہے کہ تب صرف ایک پولیس آپریشن ہوا تھا۔ لیکن اگر سہیل وڑائچ جنرل محمد اکبر خان کی کتاب ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ جون 1948ء میں جنرل اکبر خان نے شہزادہ عبدالکریم کے خلاف آپریشن کے لیے کرنل گلزار کو قلات اور کرنل شاہ کو چمن بھیجا۔ اس معاملے میں اکبر بگٹی نے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔

کیا حکومت عمران سے تین مطالبات پر مذاکرات کرے گی؟urdu news

حامد میر کے بقول اس کتاب میں یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ برطانوی فوج کے کچھ افسران اور بھارتی حکومت افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کر رہی تھی لیکن خان آف قلات کی کوششوں سے بغاوت آگے نہ بڑھ سکی۔ نواب نوروز خان کی بغاوت کو سمجھنے کیلئے سکندر مرزا کا کردار سمجھنا ہو گا جس نے خان آف قلات میر احمد یار کو خود بغاوت پر اکسایا تاکہ پاکستان میں مارشل لاء لگایا جا سکے۔ خان آف قلات کی کتاب Inside Baluchistan اب دستیاب نہیں ہے کیونکہ اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ لیکن اب امید ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے لکھی جانے والی کتاب پاکستان کے ارباب اختیار کے بلوچستان میں کردار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لے گی۔

بلوچستان کے عوام کے مسائل کا حل نہ تو ایک آزاد بلوچستان ہے اور نہ ہی مودبانہ اور غلامانہ سیاست ہے۔ آزاد بلوچستان بنانے کیلئے تین ملک توڑنے ہوں گے۔ پاکستان، افغانستان اور ایران جو بہت مشکل ہے۔ دراصل بلوچوں کو ان کے وہ حقوق دینے کی ضرورت ہے جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا۔ مسئلے کا حل بلوچستان میں صاف اور شفاف انتخابات ہیں اور یہ حل فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔

Back to top button