اختر مینگل جیسے بلوچوں کا پارلیمانی سیاست سے یقین کیوں اٹھ گیا ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کی ساکھ بلوچ قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل جیسوں کی وجہ سے تھی جن کے استعفے نے اسے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی ان کا استعفی واپس کروانے میں سنجیدہ ہوتی تو ان کے گھر رانا ثنا اللہ کی بجائے صدر آصف علی زرداری یا وزیراعظم شہباز شریف جاتے۔

بی بی سی کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ چھ ماہ کی نومولود قومی اسمبلی کے لیے سردار اختر مینگل کا استعفی کتنا بڑا دھچکا ہے، اس کا اندازہ کم از کم فوری طور پر نہیں ہو سکتا۔ قومی اسمبلی کی ساکھ سردار اختر مینگل سے تھی، بلوچستان کی سیاسی ساکھ کو غیر حقیقی سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور ترویج سے شدید نقصان پہنچایا گیا ہے، یہاں تک کہ بی این پی اور نیشنل پارٹی جیسی بلوچوں کی نمائندہ جماعتوں کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی کوششش کی گئی، طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بار بار انتخابات میں اپنی مرضی کے اعداد اور افراد حاصل کیے گئے، اپنی من پسند حکومتیں تشکیل دی گئیں، بار بار من مانی پالیسیاں اور من چاہے فیصلے کیے گئے جس میں وہاں کی زمینی قیادت اور نمائندہ جماعتوں کو مائنس کیا جا تا رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ صوبے کے 70 فیصد نوجوانوں پر مشتمل بلوچ عوام اب پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندی زور پکڑتی جا رہی ہے۔

کیا اختر مینگل کا استعفی اتحادی حکومت کے خاتمے کا آغاز ہے ؟

عاصمہ کے مطابق بار بار کی انتخابی مداخلتوں اور دھاندلیوں نے بلوچستان میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ اب وہاں کے عوام سیاسی نظام میں شمولیت کے حامی نہیں رہے۔ پارلیمنٹ سے باہر نوجوان قیادت کسی طور غیر نمائندہ حکومتوں اور نظام کو اپنانے کو تیار نہیں۔ ایسے میں اختر مینگل جیسے سنجیدہ رہنما جو پارلیمنٹ، جمہوریت اور آئین پر یقین رکھتے تھے، وہ بھی تائب نظر آتے ہیں یا یوں سمجھیے کہ اس سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ مجھے آج بھی 27 ستمبر 2012 کا وہ دن یاد ہے جب اختر مینگل جلاوطنی چھوڑ کر واپس پاکستان آئے، جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں کھڑے اختر مینگل نے آئین پاکستان اور ریاست کو تسلیم کیا تھا، ایک ایسے وقت میں جب اکبر بگٹی کی موت کے بعد بلوچستان دوراہے پر کھڑا تھا، متذبذب تھا، گومگو کی کیفیت میں تھا، تب اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں یقین دلایا کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں شکایتوں کے باوجود ریاست کے ساتھ کھڑی ہیں۔

عاصمہ شیرازی بتاتی ہیں کہ تب سپریم کورٹ میں ان کی جانب سے پیش کردہ 6 نکات میں سرفہرست بلوچستان سے تمام خفیہ اور اعلانیہ آپریشنز کا خاتمہ، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا، ڈیتھ سکواڈز کا خاتمہ، جماعتوں کی بغیر مداخلت سیاسی عمل میں شمولیت اور مسخ شدہ لاشوں اور ٹارچر کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

لیکن کیا ستم ظریفی ہے کہ آج 12 سال بعد ان میں سے ایک مطالبہ بھی پورا نہیں یو پایا۔ بلوچ عوام کے آج بھی وہی مطالبات ہیں، وہی تحفظات اور اور وہی سوالات ہیں اور جوابات آج بھی نہیں دے جا رہے۔ بلوچو عوام کے مطالبے نہیں بدلے مگر پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ گیا ہے، اب بلوچوں کی قیادت سیاسی لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر ہجوم کے ہاتھ جا چکی ہے۔

عاصمہ کے مطابق ایسے میں اب بلوچستان کا مسئلہ ڈسپرین کی گولی سے حل نہیں ہو گا، اسے زمینی حقائق کے مطابق حقیقی نمائندوں کے ذریعے طے کرنا ہو گا۔ اختر مینگل کے چھ نکات پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ اب غیر فعال پارلیمینٹ میں بلوچستان جیسے مسائل کو جگہ دینا ہو گی، سیاسی رہنماؤں نے خود ایک خلا پیدا کر دیا ہے، یہ خلا پُر نہ کیا گیا تو یہ جگہ آئین سے روگردانی کرنے والے پورا کریں گے۔ ایسے میں کیا کوئی بلوچستان کی ناراض اور نوجوان قیادت کو انگیج کرنے کی کوشش کرے گا؟ ایوان صدر میں بیٹھے آصف علی زرداری ہوں یا رائے ونڈ میں تشریف فرما میاں نواز شریف، انہیں اپنا قومی کردار جلد ادا کرنا ہو گا۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی، مزید دیر ہوئی تو کوئی بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔

Back to top button