بیرسٹر گوہر عمران کی موجودگی میں بشریٰ اور علیمہ پر گرم کیوں ہو گئے؟

اسلام آباد احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی داخلی انتشار، اختلافات اور گروپنگ کا شکار ہو چکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پارٹی رہنماؤں میں خلیج بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ جہاں ایک طرف بشری بی بی گروپ پارٹی پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے جتن کر رہا ہے وہیں دوسری جانب پارٹی کے مرکزی رہنما بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ کے آمرانہ رویے سے بددل اور مایوس ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے اجلاسوں اور مشاورتی ملاقاتوں میں پنکی پیرنی گروپ کی پی ٹی آئی قیادت سے تو تکرار معمول بنتی جا رہی ہے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان، علیمہ خان، بشری بی بی، فیصل چوہدری، بیرسٹر گوہر خان اور مشال یوسفزئی کے درمیان سماعت کے دوران تکرار کا واقعہ پیش آیا، جس میں نہ صرف پارٹی چئیرمین گوہر خان بشری بی بی اور علیمہ خان پر تپ گئے بلکہ انھوں نے نند اور بھابھی کو کھری کھری سناتے ہوئے پارٹی معاملات میں عدم مداخلت کا کھلا پیغام بھی دے ڈالا۔

پارٹی ذرائع کے مطابق، 24 نومبر کو ہونے والے احتجاج پر بات چیت کے دوران بشری بی بی نے بانی پی ٹی آئی کے سامنے احتجاج میں پنجاب کی غیرموجودگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب سے کوئی بڑا ردعمل نہیں آیا، جس کی وجہ سے ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

جس پر پی ٹی آئی چئیرمین بیرسٹر گوہر خان نے خاموشی اختیار کرنے کی بجائے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں پانچ ہزار افراد کی گرفتاریوں ہوئیں۔ انھوں نے بشری بی بی کے برخلاف پنجاب کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں پارٹی کا قرض چکانا ممکن نہیں رہا۔ جس پر بشری بی بی رنجیدہ ہو کر خاموش ہو گئیں۔

اس دوران علیمہ خان نے پی ٹی آئی رہنما فیصل چوہدری سے سوال کیا کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں اخبارات اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کیوں نہیں کی جارہی، فیصل چوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ جو کچھ کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔

علیمہ خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مانیٹرنگ کمیشن کی فعالیت پر بھی سوال اٹھایا، جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ کمیشن عدالت نے تشکیل دیا ہے اور وہ اسے روکنے کا اختیار نہیں رکھتے۔تکرار کے دوران مشال یوسفزئی نے فیصل چوہدری پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے مانیٹرنگ کمیشن کو روکنے کی کوشش کی، جس پر فیصل چوہدری نے واضح کیا کہ یہ کمیشن عدالت کی طرف سے بنایا گیا ہے، اور وہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

ذرائع کے مطابق، بیرسٹر گوہر خان نے اس تکرار کے دوران علیمہ خان اور مشال یوسفزئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ فیصلوں کو پارٹی کی قیادت پر چھوڑنا ضروری ہے، کیونکہ جب ہر کوئی احتجاج اور شہادتوں کے بارے میں بولے گا تو کنفیوژن پیدا ہوگی۔ جس کے بعد عمران خان نے دونوں اطراف کو خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔بعد ازاں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے پنجاب میں فسطائیت کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں بڑھتی ہوئی حکومتی فسطائیت کی وجہ سے لوگ خوف کا شکار ہیں اور پی ٹی آئی کی احتجاجی سرگرمیوں میں شرکت سے گریزاں ہیں۔

سابق ISI چیف جنرل فیض حمید کی سیاہ کاریوں کی داستان

پی ٹی آئی کے ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہوئے اختلافات بارے گفتگو کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماوں میں تو تکرار پارٹی کے اندرونی اختلافات اور تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بشری بی بی اور علیمہ خان کی پارٹی معاملات میں مداخلت بڑھتی جا رہی ہے جبکہ پارٹی قیادت اس طرز عمل کو پارٹی کے منشور کے منافی قرار دیتی ہے تاہم اکثریتی پارٹی رہنما اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ بشری بی بی کے خلاف کوئی بھی بات کر کے ان کا پارٹی میں اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہے کیونکہ عمران خان ماضی قریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد احتجاج کے دوران بشری بی بی کی جانب سے کئے گئے اقدامات کو اپنے احکامات قرار دے چکے ہیں حالانکہ انھی اقدامات کی وجہ سے بشری بی بی کو پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا تھا۔ تاہم اب پارٹی قیادت نے بھی اس حوالے سے سخت پالیسی اپناتے ہوئےفیصلہ کیا ہے کہ آئندہ پارٹی معاملات میں صرف عمران خان کے ڈائرکٹ احکامات پر عملدرآمد کیا جائے گا جبکہ بانی پی ٹی آئی کے پیغامات دینے والی خاندانی خواتین کو پارٹی معاملات سے دور ہی رکھا جائے گا۔

Back to top button