چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یوتھیے ججز والی لائن کیوں لے لی؟

آئین میں 26 ویں ترمیم کے تحت آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد اس کے نئے سربراہ جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے زیادہ طاقتور اور بااختیار ہونے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نئے چیف جسٹس یحیی آفریدی نے یوتھیا قرار پانے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر والی لائن لینی شروع کر دی ہے۔

یاد رہے کہ جوڈیشل کمیشن نے پانچ کے مقابلے میں سات ووٹوں سے جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ آئینی بینچ کے سربراہ کے پاس کیا اختیارات ہوں گے اور یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ جسٹس امین الدین بطور سربراہ آئینی بینچ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آفریدی سے بھی زیادہ بااثر ہوں گے، خصوصا سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حوالے سے اب تمام تر اختیار انہی کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں اگر نئے چیف جسٹس یحیی آفریدی عمراندار کہلانے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے ساتھ مل کر چلتے نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بننے والا آئینی بینچ ہی اب تمام آئینی معاملات کو دیکھے گا خصوصاً جن معاملات میں آئین کی تشریح مطلوب ہو۔

ایسے میں بادی النظر میں آئینی بینچ اب سپریم کورٹ آف پاکستان سے زیادہ با اختیار اور طاقتور ہو گا۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر بیرسٹر صلاح الدین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جن کیسز میں حکومت یا برسراقتدار جماعت کا مفاد ہو گا وہ آئینی بینچ کے پاس جائیں گے۔ ان کیسز کی ججوں میں تقسیم کا فیصلہ بھی بینچ کا سربراہ کرے گا۔ چنانچہ وہ تمام کیسز جو حکومت کے لیے اہم ہوں گے ان میں بنیادی کردار آئینی بینچ کے نئے سربراہ جسٹس امین الدین کا ہی ہو گا۔‘

اس حوالے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ چیف جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو باری باری مخصوص عرصہ کے لیے آئینی عدالت کی سربراہی دے جائے تاکہ ’پک اینڈ چوز‘ کا الزام نہ لگایا جا سکے لیکن جوڈیشل کمیشن کی اکثریت نے اس تجویز کو رد کر دیا تھا۔ اس حوالے سے بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کو سپریم کورٹ میں اتفاق قائم رکھنا تھا تو تمام ججز کو سینیارٹی کی بنیاد پر نامزد کیا جانا چاہیئے تھا۔ ویسے بھی عجیب لگتا ہے کہ ایک جج خود ووٹ ڈال رہا ہو کہ مجھے آئینی بینچ کا سربراہ نامزد کیا جائے، جیسا کہ جسٹس امین الدین خان نے بطور ممبر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کیا۔

یاد رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم میں آئین کی آرٹیکل 191 اے کا اضافہ کیا گیا جو آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔ اس ترمیم کے مطابق آئینی بینچوں کی تعداد اور ان کی مدت کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن کرے گا جو آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔ تو سوالنیہ ہے کہ کیا پھر بھی آئینی بینچ کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان سے زیادہ با اختیار ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے کیونکہ اب صحیح طور پر با اختیار صرف آئینی بینچ کا سربراہ ہی ہو گا کیونکہ سیاسی اور آئینی تنازعات میں ہی قانون کی وضاحت کرنا ہوتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات میں سے ایک جوڈیشل نظر ثانی کا اختیار ہے جو اس بینچ کے پاس ہو گا۔

ایک ایسے وقت میں جب 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالت عظمیٰ میں سنیارٹی میں نمبر تین پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کا چناؤ ملک کے نئے چیف جسٹس کے طور پر ہوا تو آئینی بینچ کے سربراہ کی نامزدگی نے عدلیہ میں تقسیم کی باتوں کو مزید ہوا دی ہے۔ عمران خان کے لیے ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کار مظہر عباس بھی عدلیہ میں تقسیم کی باتوں سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ مظہر عباس کے مطابق موجودہ صورت حال میں سپریم کورٹ میں واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ یہ تقسیم قاضی فائز عیسی سے پہلے بھی موجود تھی، ان کے زمانے میں بھی رہی اور اب بھی یہ تقسیم ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ حال ہی میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سب لوگ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں لہازا اختلافات بھی سامنے آئے، جن میں آئینی بینچ کے سربراہ کی نامزدگی کے حوالے سے تحفظات تھے۔ اب اگر اس معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ یا منیب اختر کے ساتھ چیف جسٹس آفریدی بھی کھڑے ہوں تو یہ حکومت کے لیے کچھ اچھی خبر نہیں ہو گی۔

ٹرمپ کے صدر بننے سے پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی کیوں نہیں آنے والی؟

تاہم معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی بطور آئینی بینچ کے سربراہ نامزدگی کا فیصلہ اکثریتی ووٹوں سے ہوا تھا۔ اس حوالے سے حکومت کے لیے پریشانی کی بات اس لیے نہیں کہ وہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے ایسے مسائل کا حل تلاش کر چکی ہے۔ ان کے مطابق حکومت یہ بھی پہلے سے جانتی تھی کہ جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کی طرح جسٹس یحیی آفریدی بھی ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ 26ویں ائینی ترمیم لانے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ عمراندار ججز کو کارنر کیا جائے، اسی لیے اعلی عدلیہ میں ججز کی تعداد تقریبا دگنی کر دی گئی ہے تاکہ یوتھیے ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔

اس حوالے سے تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ’عدلیہ کی تقسیم کافی دنوں سے چل رہی ہے اور ماضی میں بھی اس کی مثالیں ہیں۔ مثلاً نومبر 1997 میں جب عدلیہ کے تقریباً تمام ججز نے اپنے چیف جسٹس جسٹس سجاد علی شاہ کو باہر نکال دیا تھا۔ ضیغم کے مطابق ’اعلی عدلیہ میں اب بھی تقسیم تو نظر آ رہی ہے جسے اب کنٹرول کرنے کی کوشش جاری یے۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فوج کے ہاتھوں استعمال ہونے والی عدلیہ سیاسی آلودگی کا شکار ہو کر اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے لگ گئی تھی۔ لہذا 26 ویں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہیں اور تمام سیاسی تنازعات کے حل کی ذمہ داری آئینی بینچ کو سونپ دی گئی ہے جس کا سربراہ ہمیشہ حکومت کی مرضی سے ہی لگے گا لہٰذا سیاسی عدم استحکام بھی ختم ہو جائے گا۔

Back to top button