آئینی ترمیم کے بعد عمران خان کا فوجی تحویل میں جانے کا امکان
ٹرمپ کی جیت کی خوشی میں شادیانے بجانے والے یوتھیوں کے خواب جلد چکنا چور ہونے والے ہیں کیونکہ مبصرین کے مطابق ٹرمپ کے دوبارہ صدر بن جانے کے باوجود عمران خان کی جیل سے فوری رہائی تو ممکن نہیں تاہم حالیہ قانون سازی اور جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ تشکیل دیے جانے کے بعد انہیں فوجی تحویل میں دیے جانے کے امکانات ضرور بڑھ گئے ہیں۔ اس حوالے سے اگلے دو ماہ اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ جب کہ اس سلسلے میں تازہ قانون سازی اور اس کے نتیجے میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بننے والا آئینی بینچ نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم آئینی بینچ اپنی دو ماہ کی مدت کے دوران ہی تقریباً ان تمام اہم کیسز اور اپیلوں کے فیصلے کردے گا۔ جن کا پی ٹی آئی اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان سے تعلق ہے۔ ان اہم مقدمات میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل، سویلین کے مقدمات سے ملٹری کورٹس کو روکنے کے خلاف نظر ثانی اپیلیں، اور چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر اپیلیں سر فہرست ہیں۔ چونکہ ان تمام کا تعلق آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین یعنی مفاد عامہ سے ہے۔ لہٰذا یہ سب اپیلیں آئینی بینچ سنے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان آئینی کیسز میں عمران خان کے مستقبل سے جڑا سب سے اہم فوجی عدالتوں کا کیس ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس تیئس اکتوبر کو جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے عام شہریوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث تمام ایک سو تین افراد کے خلاف سماعت ملٹری کورٹس میں نہیں بلکہ عام عدالتوں میں ہوگی۔ بینچ کا فیصلہ چار، ایک کی اکثریت سے سنایا گیا۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
یاد رہے کہ نو مئی کے ان ملزمان کو آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت فوجی تحویل میں لیا گیا تھا۔ جو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن پانچ رکنی بینچ کے چار ججز نے آرمی ایکٹ کے اس سیکشن کو ہی غیر آئینی قرار دے دیا۔ جس کے تحت ماضی میں اور خود پی ٹی آئی کے اپنے دور حکومت میں بھی متعدد سویلین کے خلاف نہ صرف ملٹری کورٹ میں مقدمات چلائے گئے۔ بلکہ ان کو سزائیں بھی سنائی گئیں۔ اس فیصلے کے بعد خاص طور پر عمران خان نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ابتدائی طور پر نو مئی کے ایک سو تین ملزمان کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلائے جانے کے بعد ان کا نمبر بھی آئے گا۔ ان کا یہ خوف بے جا نہیں تھا کہ حکومتی اور ریاستی ذرائع متعدد بار عمران خان کو سانحہ نو مئی کا ماسٹر مائنڈ قرار دے چکے ہیں۔
مبصرین کے مطابق فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران خان کےلیے ایک بڑے ریلیف کے طور پر دیکھا گیا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجازالاحسن کی عمران خان اور پی ٹی آئی سے محبتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں۔ ان کا بیٹا سلمان اعجاز پی ٹی آئی کا سرگرم کارکن تھا۔تاہم آئین کی آڑ میں فوجی املاک اور شہداء کی یاد گاروں پر حملہ کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے والے جسٹس اعجازالاحسن ایک روز چپکے سے استعفیٰ دے گئے۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کے سامنے ان کی آف دی ریکارڈ سرگرمیوں کا پلندہ رکھ دیا گیا تھا اور دو آپشن دیئے گئے تھے۔ استعفیٰ دیدو یا اپنے جگری یار مظاہر علی نقوی کی طرح سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کےلیے تیار رہو۔ جس میں برطرفی یقینی تھی۔ سو، اعجازالاحسن نے پنشن اور دیگر مراعات بچانے کےلیے استعفے کو ترجیح دی۔
جسٹس اعجازالاحسن اور بدترین کرپشن پر برطرف مظاہر اکبر نقوی میں بڑی گہری دوستی تھی۔ جب مظاہر نقوی کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی چل رہی تھی تو کونسل کے رکن کے طور پر انہیں بچانے کےلیے جسٹس اعجازالاحسن نے بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔ لیکن خود ان کی اپنی لٹیا ہی ڈوب گئی۔
بعد ازاں فوجی عدالتیں کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں کو سننے کے لیے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تشکیل کردہ چھ رکنی لارجر بینچ نے ایک کے مقابلے میں پانچ کی اکثریت سے جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے تھے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ایک سو تین افراد کا ٹرائل جاری رہے گا۔ تاہم فوجی عدالتیں تمام گرفتار ملزمان کے خلاف حتمی فیصلہ جاری نہیں کریں گی۔ چھ رکنی لارجر بینچ نے بعد ازاں رواں برس اپریل میں فوجی عدالتوں کے حتمی فیصلے کے لیے یہ معاملہ ججز کمیٹی کو واپس بھیج دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ اس کیس کو موجودہ بینچ سنے گا یا لارجر بینچ سنے گا۔ تاہم قریباً سات ماہ گزر جانے کے باوجود دوبارہ یہ کیس زیر سماعت نہیں آیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یوتھیے ججز والی لائن کیوں لے لی؟
مبصرین کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اندر صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ اب فوجی عدالتوں سے متعلق کیس آئینی بینچ سنے گا۔ غالب امکان ہے کہ آنے والے ایک دو ہفتوں میں آئینی بینچ میں یہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہوجائے گا۔ حکومت سے وابستہ قانونی ماہرین کو قوی امید ہے کہ پانچ رکنی بینچ کا پرانا فیصلہ کالعدم قرار دے کر آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی بحال کردے گا۔ ایسا ہونے کی صورت میں نہ صرف نومئی میں ملوث ملزمان کو ملٹری کورٹس کے ذریعے سزائیں دلانے کا راستہ کھل جائے گا بلکہ عمران خان کو فوجی تحویل میں دیا جانا بھی ممکن ہوجائے گا۔