یوتھیوں کی صدر ٹرمپ سے وابستہ امیدیں دم کیوں توڑنے لگیں؟
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یوتھیوں کو رسوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تمام تر منتوں اور ترلوں کے باوجود عمران خان کو امریکی صدر کی حلف برداری کا دعوت نامہ نہ دینے کے بعد اب تک ٹرمپ نے اپنے کسی خطاب یا گفتگو میں عمران خان کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جبکہ ماضی قریب میں عمران خان کہ رہائی کا مطالبہ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے یوتھیے مشیران نے بھی اس حوالے سے خاموشی اختیار کر لی ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان بالکل بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ مبصرین کے مطابق امریکی صدر کی بے اعتنائی کے بعد اب ٹرمپ سے عمران کی رہائی کی امیدیں لگائے بیٹھے یوتھیے اب شرمندگی سے منہ چھپاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوستی اور ذاتی تعلقات کے دعوے ہر گزرتے دن کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔حلف برداری برداری میں مدعو نہیں کرنے کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک اپنے کئے گئے تین خطابات اور اپنی پریس کانفرنس میں بھی عمران خان کا ذکر تک نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی ہی صفوں میں مزید مایوسی پھیل گئی ہے۔
مبصرین کے مطابق نومنتخب امریکی صدر کے خطاب اور پریس کانفرنس کا محور روس یوکرائن جنگ،غزہ میں اسرائیلی حملوں کی بندش اور امریکہ چیین تعلقات رہے۔کسی صحافی نے بانی تحریک انصاف کے بارے میں سوال تک نہیں کیا۔ مبصرین کے مطابق جہاں ٹرمپ انتظامیہ عمران خان بارے خاموش ہے وہیں دوسری جانب واشنگٹن کئ سڑکوں پر عمران خان کے اسامہ کو شہید قرار دینے کے قول اور امریکہ مخالف نعروں کا خوب شور سنائی دے رہا ہے۔ شہر میں جابجا عمران خان کے ماضی کی پرو طالبان بیانات اور نعروں سے مزین ٹرک سڑکوں پر گھومتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ واشنگٹن میں تحریک انصاف کے رہنما اور عمران کا چرچا غائب ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ امریکا پاکستان کی آزاداسٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے چین اور بھارت سے تعلقات کے تناظر میں اپنے روابط استوار کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان اور امریکا میں ہم آہنگی کا فقدان بھی تعلقات کےدیرپا شراکت داری میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مبصرین کے مطابق فی الحال پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آرہا۔ اس لیے حکومت پاکستان کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ تا ہم تحریک انصاف کے لیے کافی فکر کی بات ہے کیونکہ ان کو ٹرمپ سے جو امیدیں ہیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کی کئی پالیسیاں ریاست پاکستان کے لیے بہتر ہیں۔ میکسیکو کے بارے میں ٹرمپ پالیسی کو دیکھیں، وہ ہزاروں نہیں لاکھوں غیر قانونی میکسیکنز کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے میکسیکو کی سرحد پر فوج لگانے کے احکامات دیے ہیں۔ آپ اس کو پاک افغان سرحد کے تناظر میں دیکھیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کے لوگوں کو ملک سے نکال رہے ہیں تو پاکستان کو غیر قانونی افغانوں کے نکالنے پر کیسے روک سکتے ہیںپاکستان اب زیادہ سختی سے غیر قانونی مقیم افغانوں کو نکال سکتا ہے۔ اگرا مریکہ میکسیکو سے لوگوں کی آمد روکنے کے لیے سرحد پر فوج تعینات کر رہا ہے، سرحدی باڑ لگا رہا ہے، سرحد کو سیل کر رہا ہے، سرحدی دیوار تعمیر کرنا چاہتا تو پاکستان اٖفغان سرحد کیوں نہیں بند کر سکتا ۔ ہم کیوں باڑ نہیں لگا سکتے۔ہم کیوں بارڈر سیل نہیں کر سکتے۔ ہم کیوں نہیں دیوار تعمیر کرسکتے۔ امریکا نے میکسیکو کے لیے جو پالیسی بنائی ہے، پاکستان وہی پالیسی افغانستان کے لیے بنا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کو اب افغان س
مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی پالیسی میں افغانستان کی طالبان حکومت کے ڈالر بند کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ یہ بھی پاکستان کے لیے خوش آیند ہے۔ ان ڈالروں کی وجہ سے افغا ن طالبان پاکستان کے خلاف جنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ٹی ٹی پی کو پناہ دینے اور وہاں سے حملوں میں ان ڈالروں کی گرمی شامل تھی۔ تاہم اب جیسے جیسے یہ ڈالر بند ہونگے پاکستان کے لیے افغان طالبان کے ساتھ بات کرنا اور اپنی بات منوانا آسان ہو جائے گا۔ ہمیں افغان طالبان کے بدلے ہوئے رویے بھی نظر آئیں گے۔ اس لیے ٹرمپ کی یہ پالیسی بھی پاکستان کے حق میں ہے۔ ہمیں اسے خوش آئند قرار دینا چاہیے۔
مبصرین کا مزید کہنا ہےکہ لگتا ہے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے دہائی دینے والے یوتھیے مشیران کو بھی ٹرمپ نے اپنے کام پر توجہ دینے کی ہدایات جاری کر دی ہیں اسی لئے امریکی صدر عمرانڈو مشیر رچرڈ گرنیل کا ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد جو ٹوئٹ سامنے آیا ہے اس میں بانی تحریک انصاف کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے چونکہ صدر ٹرمپ نے انھیں وینز ویلا کے لیے خصوصی نمایندہ مقرر کیا ہے۔ اس لئے اب ان کا پہلا ٹوئٹ ان کی اسائنمنٹ کے بارے میں ہی تھا۔ انھوں نے اب بانی تحریک انصاف کے بارے میں کوئی ٹوئٹ نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اگر وہ ایک ٹوئٹ کر دیتے تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کو چار چاند لگ جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انھوں نے ایک نہیں کافی ٹوئٹس کیے ہیں۔ لیکن بانی تحریک انصاف کے بارے میں ایک بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ بھی بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بھول ہی گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ نے امریکا میں سیاسی پناہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان سے ملک دشمن لوگ سیاسی پناہ کے لیے امریکا جاتے ہیں۔ اور وہاں سیاسی پناہ کے کیس دائر کرتے ہیں۔ کچھ صحافی جان بوجھ کر فوج اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرکے امریکا میں سیاسی پناہ کا کیس کرتے ہیں۔ تاہم اب امریکہ میں سیاسی پناہ بند ہونے سے بھی پاکستان کو فائدہ ہوگا کیونکہ پاکستان دشمنوں نے امریکا کو جو جنت بنایا ہوا تھا، یہ سلسلہ اب ختم ہوجائے گا۔