افغان شہریوں کی بیویاں واپس افغانستان جانے سے انکاری کیوں؟

حکومتی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد پاکستان بدر کئے جانے والے افغانی آج کل دوہری مشکلات کا شکار ہیں جہاں ایک طرف پاکستان میں ان کے کاروبار بند ہو چکے ہیں اور انھیں مالی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے وہیں افغان باشندوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین اور ان کے بچوں کیلئے افغانستان واپسی کے فیصلے نے نئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ بیشتر بچوں اور خواتین نے افغان شوہروں کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیا ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کے مختلف علاقوں میں متعدد مقامی خواتین نے افغان باشندوں کے ساتھ شادیاں کر رکھی ہیں۔ تاہم افغان باشندوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہونے کی وجہ سے پشاور سمیت صوبہ بھر میں ایسے لوگوں کو دوہرے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق بعض علاقوں میں خواتین نے اپنے بچوں کو بھی افغانستان بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس سے متعدد خاندان ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ تاہم مبصرین کھ مطابق اگر حکومت ایسے خاندانوں کو اوریج کارڈ دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اوریجن کارڈز ملنے کی صورت میں یہ خاندان ٹوٹنے سے بچ جائیں گے تاہم اس وقت موجودہ صورتحال انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکی ہے۔ ذرائع کے بقول ان افغان باشندوں کو کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں، جنہوں نے اپنی خواتین کے رشتے پاکستانیوں کو دیئے ہیں اور جن کے بچے جوان بھی ہیں اور پاکستان میں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم وہ افغان باشندے جن کے ساتھ پاکستانی شہریوں نے کاروبار میں پارٹنر شپ قائم کی تھی، انہیں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان شہریوں کی ملک بدری کے حتمی فیصلے کے بعد پہلے مرحلے میں تو افغانوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین نے افغانستان جانے سےانکار کیا۔ تاہم بعد ازاں ایسی خواتین کےوالدین اور خاندان والوں نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں حالات ایسے نہیں، جس میں خواتین کو وہ آزاد ماحول میسر ہو، جو پاکستان میں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں خواتین ملازمت سمیت ہر شعبے میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ جبکہ گزشتہ دنوں افغانستان سے اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ خواتین کیلئے گھروں کی کھڑکیاں بھی بند کر دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ خواتین پر تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں بھی پابندیاں ہیں۔ جس پر پاکستانی خواتین شدید تشویش میں مبتلا ہیں ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ اس حال میں افغانستان چلی جاتی ہیں تو جو سہولیات ان کو پاکستان میں میسر ہیں اور ان کا سارا خاندان پاکستان میں موجود ہے، افغانستان میں ان کیلئے زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ جبکہ ان کے بچوں کا تعلیمی سلسلہ بھی رک جائے گا۔ کیونکہ بعض خاندان ایسے بھی ہیں جن کے بچے اس وقت میٹرک کے امتحانات دے رہے ہیں اور میٹرک امتحانات کے علاوہ دیگر سینکڑوں بچے انٹر، گریجویشن سمیت ماسٹرز کے امتحانات کیلئے بھی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فی الحال خاندانوں کو منانے کیلئے جرگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ تاہم کسی بھی حتمی فیصلے پر ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا جس کی وجہ سے خاندانوں میں دوریاں بڑھنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ جرگہ سسٹم چونکہ افغانستان سمیت پاکستان کے قبائلی اضلاع اور پشاور کے مضافاتی علاقوں میں انتہائی مقبول ہے۔ اسی لئے افغانوں نے اس کا سہارا لیا ہے اور جرگے کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مختلف علاقوں میں جرگے ہوئے ہیں۔ تاہم اس کی تفصیلات اور اس کے نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ دوسری جانب پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں مقیم افغان خواجہ سرائوں بھی واپس اپنے ملک جانے سے انکاری ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں مقیم خواجہ سراوں کا کہنا ہے کہ انھیں پاکستان میں جو سہولیات میسر ہیں وہ افغانستان میں ملنا مشکل ہیں۔ ان کو افغانستان میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں انہیں عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی مل رہی ہے۔ ان کی پیدائش پاکستان کی ہے اس لئے وہ پاکستان کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ افغان خواجہ سرائوں کے ساتھ نرمی برتی جائے اور ان کو پاکستانی شہریت دینے سمیت پاکستان میں ٹھہرنے کی اجازت دی جائے۔ بعض افغان خواجہ سرا ایسے ہیں جن کے پاس اتنا پیسہ اور سرمایہ نہیں کہ کسی دوسرے ملک جا سکیں۔ کیونکہ امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے بیشتر خواجہ سرا، پاکستان سے افغانستان کے بجائے دوسرے ممالک کو منتقل ہوچکے ہیں۔ جبکہ غریب افغان خواجہ سرا اب بھی مختلف شہروں کی سڑکوں پر بھیک مانگ کر روزی روٹی کماتے دکھائی دیتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو واپس جانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد افغان مہاجرین کی اپنے خاندانوں کے ہمراہ واپسی جاری ہے اور اس سلسلے میں باقاعدہ صوبے کے مختلف اضلاع میں کیمپ بھی قائم کئے گئے ہیں، جہاں پر واپس جانے والے افغان باشندوں کو سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ تاہم اس صورتحال میں افغان خواجہ سرائوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں جو سہولیات ان کو میسر ہیں وہ افغانستان میں ملنا مشکل ہیں۔ کیونکہ افغانستان اور پاکستان کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہاں پاکستان میں ان کو تمام تر سہولیات حکومت کی جانب سے میسر ہیں اور عزت کے ساتھ د ووقت کی روٹی بھی کما رہے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں اس طرح کی سہولیات ملنا انتہائی مشکل ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرے اور ان کو شہریت دینے سمیت واپس نہ بھیجا جائے۔ افغان خواجہ سرائوں کے مطابق پاکستان میں موجود خواجہ سرائوں کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی حصہ رکھا گیا ہے اور ان کو ٹرانسپورٹ سمیت دیگر مقامات پر حکومتی سہولیات میسر ہیں۔ چونکہ ان کی پاکستانی خواجہ سرائوں سے قریبی دوستی بھی ہے اس لئے وہ ان سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ انہیں بھی پہنچتا ہے۔ اس لئے وہ پاکستان چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔