پاکستان بچانے کے لیے دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری کیوں ہو چکا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اب اس بات پر اتفاق کرنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو جڑ سے ختم کر دینے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں بچا۔ یہی پاکستان اور عوام کی بقا کا واحد راستہ ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے، نہ سیاسی استحکام آ سکتا ہے، اور نہ ہی یہاں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے،
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ ہر محب وطن کی خواہش ہے کہ اس دھرتی کے سبز پرچم کو سر بلند دیکھے، اس کو دنیا کی مملکتوں میں سب سے ممتاز دیکھے، اس ارض پاک کو تا قیامت امن کا گہوارہ بنا ہوا رکھے، اس دیس میں خوشحالی ہو، رنگ ہوں، خوشیاں ہوں۔ محبت یہاں رقصاں ہوں، امن یہاں کا نشان ہو، ترقی کی ہر چوٹی ہم نے سر کی ہو، فلاح کا ہر قدم ہم نے اٹھایا ہو، اور یہ جنت نظیر گوشہ اپنے مکینوں کے لیے جنت بھی ہو جائے۔ یہ خواہش ہر محب وطن کی ہے مگر حقیقت اس خواہش سے بہت دور بلکہ بہت ہی دور ہے۔
عمار مسعود کا کہنا ہے کہ یہ ارض پاک اب لہو لہو ہے، یہاں نفرتوں کی فصل بو دی گئی ہے، یہاں دہشت گردی کی آگ پھیل رہی ہے، یہاں بم دھماکوں کے شعلے بلند ہو رہے ہیں، یہاں ایمبولینسوں کا شور ہے۔ یہاں چیخیں، کراہیں اور سسکیاں ہیں۔ یہ سب کچھ وہ نہیں یے جس کا خواب پانی پاکستان محمد علی جناح نے اس مملکت کے قیام کے وقت دیکھا تھا۔ یہ خوف کی فضا، یہ دکھ کے بادل، یہ الم کے سائے کیوں ہمارا مقدر بنے، اس پر ہمیں سوچنا ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اس ملک میں امن دو بم دھماکوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ لوگوں کے چیتھڑے اڑنے کی خبر، آہ و زاری کرتی عورتوں کی وڈیوز، زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد، حکومت کی جانب سے معذرت اور تعزیت کے پیغامات، اعلیٰ افسران کی جانب سے اسپتالوں کے ہنگامی دورے، مرنے والوں کے پس ماندگان کے لیے رقوم کا اعلان، زخمیوں کو مفت علاج کی سہولت اور پھر اس کے بعد اگلے دہشت گرد حملے کا انتظار۔ کیا یہی ہماری قسمت میں لکھا ہے؟ ملک کے طاقتور فیصلہ سازوں کو اس بارے سوچنا چاہیے۔
انکا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں دہشتگردی کے واقعات اتنی شدت اور تواتر سے ہوئے کہ کسی کو ہوش نہیں رہا، کہیں کسی عالم دین کو بم کے گولے سے اڑا دیا گیا، کہیں کسی مسجد میں نمازیوں سے خود کش بمبار ٹکرا گیا، کہیں سیکیورٹی پر متعین جوانوں پر حملہ ہوا، کہیں معصوم بچے دہشتگردی کے شکار ہوئے، کہیں کوئی سول آبادی کو لہو میں نہلا گیا، کہیں کسی مدرسے کے طلبہ لقمہ اجل بنے۔ کہیں رزق حلال کی تلاش میں محنت کش ذبح کر دیے گئے۔ یہ سب مناظر ہم بے شمار مرتبہ دیکھ چکے ہیں، یہ سب خبریں ہم با رہا سن چکے ہیں، یہ سب ماتم ہم بہت دفعہ کر چکے ہیں۔ اس ملک کے باسیوں کے پاس بہت سے سوال ہیں۔ انہیں ان کے جوابات درکار ہیں۔ اب انہیں ابہام سے نجات چاہیے۔ اب انہیں کوئی واضح رستہ درکار ہے۔ اب اس ملک کے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب ماتم کر،کر کے ہماری آنکھیں خشک ہو گ
عمار مسعود کا کہنا ہے کہ المیے سے بڑا ا لمیہ یہ ہے کہ اس قدر خون ریزی کے باوجود ہمارے ہاں ان دہشتگردوں کے ہمدرد ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں۔ ایسے بے شمار ہیں جن کے اس دہشتگردی سے سیاسی مقاصد وابستہ ہے۔ ملک میں بدامنی سے انہیں اپنا سیاسی مفاد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اس دہشتگردی کے جواز تراشتے ہیں۔ معصوموں کا خون بہانے والوں کے غم گسار بنتے ہیں۔ دہشتگردی کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ان ظالموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان فاسقوں کی جرات کی داد دیتے ہیں۔ تاریخ کےاس خوں ریز موڑ پر ہمیں بحیثیت قوم کچھ امتحان درپیش ہیں۔ کچھ فیصلے ہیں جو اب ہمیں کرنے ہیں۔ ان فیصلوں میں نہ تعطل برداشت کیا جا سکتا ہے نہ مصلحت کو درانداز ہونے دیا جا سکتا ہے۔ اب ایک واضح حکمت عملی پر چلنا ہو گا۔ اب ایک مصمم عزم کرنا ہوگا۔ اب ایک اٹل فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب ہمیں کمزور اور مصلحت آمیز رویوں کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔ اب طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب نعرہ تکبیر کا وقت آ گیا ہے۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ اب اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ملک کا سب بڑا خطرہ فتنہ الخوارج ہی ہے۔ یہ وہ بدبخت ہیں جنہیں نہ مذہب کی تعلیمات کا کچھ لحاظ ہے، نہ مساجد کا احترام ہے نہ بے گناہوں کا خون بہنے کا احساس ہے۔ نہ ان کے سینوں میں کوئی دل ہے نہ ان کو علمائے دین کی حرمت کا کچھ خیال ہے۔ یہ فتنہ اس دھرتی کے بدن کو چاٹ رہا ہے۔ اس فتنے کو قلع قمع کرنا ہی واحد رستہ ہے۔ یہی طریقہ ہے امن کا بحال کرنے کا۔ یہی قرینہ ہے اس عفریت سے نمٹنے کا۔ لہازا ہم نے بحیثیت قوم اب اس بات پر اتفاق کرنا ہے کہ اس خوارجی فتنے کو جڑ سے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا۔ یہی پاکستان اور ہماری بقا کا واحد رستہ ہے۔ اس کے بغیر نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے، نہ مملکت میں استحکام آ سکتا ہے، نہ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے، نہ بیرونی ممالک ہمیں اچھی نظرسے دیکھیں گے، نہ یہاں سے بھوک ختم ہو گی، نہ افلاس مٹے گا۔ نہ ملک ترقی کرے گا نہ خوشحالی کا پرچم بلند ہوگا۔
عمار مسعود کا کہنا ہے کہ اب ان سب لوگوں کو چپ سادھ لینی چاہیے جو ان فتنہ انگیزوں سے ہمدردی کرتے ہیں، اسی میں ان کا بھلا ہے۔ اب اس مملکت کے پاس ان خوارجیوں کو جہنم واصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب ہم مزید دکھ نہیں دیکھ سکتے۔ مزید خودکش دھماکے نہیں سہہ سکتے۔ اب ہم مساجد کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ اب ہم معصوم بچوں کی لاشیں مزید نہیں اٹھا سکتے۔ اب ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ یہ خوارجی امن کے بھی دشمن ہیں، ملک کے بھی خلاف ہیں، اسلام سے بھی منحرف ہیں، انسانیت سے بھی عاری ہیں۔ اس فتنے کو ختم کرنا ہی بقا کا واحد رستہ ہے۔ یہی ایک رستہ ہے امن، استحکام اور ترقی کا۔ ہمیں یہ فیصلہ آج اور ابھی کرنا ہے۔اب خوارجیوں کے ظلم اور بربریت کے خلاف ہم سب نے آواز بلند کرنی ہے۔ ہمیں ساری دنیا کو احساس دلانا ہو گا کہ ان خوارجیوں کو ختم کیے بغیر نہ ملک میں امن آ سکتا ہے نہ دنیا میں سکون ہو سکتا ہے۔