عمران خان جنرل باجوہ کو ہٹانے میں کیوں ناکام رہے؟
اپنے اقتدار کے خاتمے سے چند گھنٹے پہلے عمران خان نے اپنے حامیوں کو ایک نیا سرپرائز دینے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن وزارت دفاع کے عدم تعاون کی وجہ سے وہ اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے، تاہم ملک بھر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہوں نے جنرل قمر باجوہ کی جگہ جنرل فیض حمید کو نیا آرمی چیف لگا دیا ہے۔
ان افواہوں کو زیادہ تقویت تب ملی جب رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے کھلوا کر ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کی برطرفی کے ’ممکنہ‘ نوٹیفیکشن کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں دائر اس فوری درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بری فوج کے سربراہ کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے لہٰذا عدالت اس حکم کو بہترین عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے۔
یہ درخواست تیار تو کر لی گئی لیکن اس میں بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے نوٹیفیکشن نمبر کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ عمران کی کوشش کے باوجود وزارت دفاع نے تعاون کرنے سے صاف انکار کر دیا جا وجہ سے آرمی چیف کی برطرفی کا نوٹیفیکشن جاری نہ ہو سکا اور یوں اس پیٹشن پر سماعت کی نوبت ہی نہیں آئی۔
یاد رہے کہ جب یہ واقعات ہو رہے تھے تب اسلام آباد کی سڑکوں پر فوجی ٹرک نکل آئے تھے اور ریڈ زون میں سکیورٹی دستے بھی پہنچ چکے تھے۔
اسی دوران قومی اسمبلی کی بلڈنگ کے باہر قیدیوں کے لیے مختص پولیس وینیں بھی پہنچ چکی تھیں چنانچہ 12 بجے سے پہلے ہی سپیکر اسد قیصر نے استعفی دیتے ہوئے ایاز صادق کو قومی اسمبلی کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے کہہ دیا۔ یوں 9 اپریل کی رات وزیر اعظم عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پاس ہونے کے بعد اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے۔ لیکن دس سال کی صبح بی بی سی اردو نے اپنی ویب سائٹ پر یہ خبر چلا دیں کہ گزشتہ رات عمران خان نے آرمی چیف کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
لیکن فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے نے بی بی سی کہ خبر کو گمراہ کن قرار دے دیا۔ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ ‘بی بی سی اردو کی آج شائع شدہ خبر سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہے، اس پروپیگنڈا کہانی میں کوئی معتبر، مستند اور متعلقہ ذرائع نہیں ہے’۔ بیان میں کہا گیا کہ ‘یہ گمراہ کن سٹوری بنیادی صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے، اس جعلی کہانی میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ ایک منظم ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ لگتا ہے’۔ آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ معاملہ بی بی سی حکام کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے۔ لیکن بی بی سی کی ویب سائٹ پر یہ خبر اب بھی موجود ہے۔
خیال رہے کہ بی بی سی کی اردو سروس نے ‘سینیچر کی رات وزیراعظم ہاؤس میں کیا ہوا تھا’ کے عنوان سے خبر شائع کی تھی جس میں عمران خان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد سے متعلق پیش آئے واقعات کا تذکرہ تھا۔
بی بی سی کی خبر میں کہا گیا کہ ہفتہ کے روز تمام دن گہما گہمی کا مرکز پارلیمنٹ ہاؤس رہا لیکن افطار کے وقت جب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا تو سرگرمی کا مرکز اچانک وزیراعظم ہاؤس بن گیا۔ خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ ‘اس دوران دو بن بلائے مہمان بھی بذریعہ ہیلی کاپٹر، غیر معمولی سیکیورٹی اور چاق و چوبند جوانوں کے حصار میں وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور وزیر اعظم سے تقریباً پونا گھنٹہ تنہائی میں ملاقات کی’۔
بی بی سی کا کہنا تھا کہ ‘اس ملاقات میں کیا بات ہوئی، اس کی کوئی اطلاعات دستیاب نہیں ہیں تاہم باوثوق اور معتبر سرکاری ذرائع نے جنہیں اس ملاقات کے بارے میں بعد میں معلومات فراہم کی گئیں، انہوں نے بتایا کہ یہ ملاقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی’۔ خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ‘ملاقات میں موجود ایک اعلیٰ عہدیدار کو عمران خان نے ایک گھنٹہ قبل ہی ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اس لیے وزیر اعظم کے لیے ان مہمانوں کی یوں بن بلائے اچانک آمد غیر متوقع تھی’۔
بی بی سی نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ‘سابق وزیراعظم توقع کر رہے تھے کہ اس ہیلی کاپٹر میں ان کے نومقرر کردہ عہدیدار یعنی نئے آرمی چیف وزیراعظم ہاؤس پہنچیں گے جس کے بعد وہ شور و غوغا مدھم پڑ جائے گا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس سے شروع ہوا تھا۔
ساتھی ہی یہ بھی کہا گیا کہ شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس اعلیٰ ترین برطرفی اور ایک نئی تعیناتی کے لیے جو نوٹی فیکیشن وزارت دفاع سے جاری ہونی چاہیے تھی وہ جاری نہ ہو سکی، یوں اس ’انقلابی‘ تبدیلی کی وزیر اعظم ہاؤس کی کوشش ناکام ہو گئی’۔ بی بی سی نے کہا کہ ‘ویسے اگر وزیراعظم کے حکم پر برطرفی کا یہ عمل مکمل ہو بھی جاتا تو بھی اسے کالعدم قرار دینے کا بھی بندوبست کیا جا چکا تھا کیوں کہ ہفتہ کی رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے تالے کھولے گئے اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کا عملہ ہائی کورٹ پہنچ گیا تھا’۔
بی بی سی کے مطابق ‘بتایا گیا کہ ہائی کورٹ ہنگامی طور پر ایک پٹیشن سماعت کے لیے مقرر کی جانے والی ہے جس میں ایک عام شہری کی حیثیت سے عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے ’ممکنہ‘ نوٹی فکیشن کو عدالت میں چیلنج کیا تھا’۔ بی بی سی کا دعویٰ تھا کہ ‘اس فوری درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بری فوج کے سربراہ کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے، لہٰذا عدالت اس حکم کو بہترین عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے’۔
عمران خان نے بطور وزیراعظم آخری حکم کس کو اور کیا کِیا؟
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ وزیراعظم کے پاس آرمی چیف کو کسی قسم کی ٹھوس وجوہات کے بغیر ہٹانے کا اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 7 اپریل کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وزیر اعظم کا کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہو گا، لہذا وزیراعظم سیاسی مقاصد کیلئے آرمی چیف کو عہدے سے نہیں ہٹا سکتا۔
یہ درخواست وزیر اعظم کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے مدت ختم ہونے سے پہلے آرمی چیف کو برطرف کرنے کے صوابدیدی اختیار استعمال کرنے سے روکنے کے لیے ایک پیشگی اقدام تھا۔ چنانچہ عمران خان کی جانب سے اپنے ایک اور محسن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ محسن کشی کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔