عمران خان خود اپنی رہائی اوراقتدارکی راہ میں بڑی رکاوٹ کیوں؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے واحد سیاسی لیڈر ہیں جو اپنی "ڈو آر ڈائی” کی پالیسی کے تحت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی بڑھاتے ہوئے اپنی قید بھی لمبی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ جس دن وہ "ڈو اور ڈائی” کے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلیں گے، اُس روز وہ جیل سے بھی باہر نکل آئیں گے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ’’ڈو اور ڈائی‘‘ کسی جنگ کا اصول تو ہو سکتا ہے، لہکن سیاست کا نہیں۔ سیاست کی اساس ’آج نہیں تو کل‘ ہوا کرتی ہے، جبکہ ’آج اور ابھی‘ نہیں۔ ’تخت یا تختہ‘ لشکری اصطلاحات ہیں، یہ سیاست کی زبان نہیں ہوا کرتی۔ ’’گولی کا جواب گولی سے دیں گے‘‘ یہ کسی سیاست دان کا بیان نہیں ہو سکتا۔
حماد غزنوی کے بقول سیاست دان کی طاقت تو مکالمے میں ہوتی ہے، سیاست دان کی جیت کا واحد راستہ اہنسا ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ فائرنگ کے دوطرفہ تبادلے میں کبھی کوئی سیاست دان نہیں جیتا، سیاست تو فائرنگ بند کروانے اور ایک میز کے گرد بیٹھنے کا نام ہوا کرتا ہے۔ ہمارا عمران خان کے طرزِ سیاست پر بس یہی بنیادی اعتراض ہے۔ وہ دروازہ نہیں ڈھونڈتے، دیوار توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ سیاسی و اخلاقی برتری سے جیتنے کی کوشش نہیں کرتے، وہ طاقت سے تاراج کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بار بار ناکام ہونے کے باوجود اب بھی یلغار کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں، وہ بار بار وہی غلطی دہراتے ہیں، بار بار خود کو بند گلی میں پھنسا لیتے ہیں۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ 2014 کے دھرنے کا اصول بھی ’ڈو اور ڈائی‘ تھا، نعرہ یہ تھا کہ ہم ڈی چوک سے نہیں اٹھیں گے جب تک حکومت کا بھٹا نہیں بیٹھ جاتا، پھر خان نے 35 پنکچروں کا نعرہ لگایا،اسمبلیوں سے استعفے دیے، اور وزیرِ اعظم کو گلے میں رسہ ڈال کر پی ایم ہائوس سے باہر نکالنے کو اپنا ہدفِ اعظم قرار دیا۔اس ڈو اور ڈائی میں عمران خان ناکام ہوئے۔
جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو خان نے اس سے بھی ڈو اور ڈائی کی طرح نمٹنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ جب عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو خان نے پھر سے ڈو اور ڈائی کا نعرہ لگا دیا، قومی اسمبلی سے استعفے دیے، غصے میں اسمبلیوں کو کھلونوں کی طرح توڑا، نتیجہ پھر ناکامی کی صورت میں نکلا۔
جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی سے 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں تک، اس کہانی کے ہر باب کا عنوان ڈو اور ڈائی رہا ہے۔ان تمام ’جنگوں‘ میں عمران کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ان تمام ناکامیوں سے عمران نے یہ ’سبق‘ سیکھا کہ پچھلے ہفتے وہ ایک مرتبہ پھر اپنے پھیپھڑوں کی تمام تر توانائی سے چنگھاڑے ’’ڈو اور ڈائی‘‘ ۔ لیکن موصوف حسب سابق یک بار پھر ناکام ہو گئے۔ اتنے بڑے ڈیٹا کی گواہی کے بعد یہ سمجھنا آخر کتنا دشوار ہے کہ اس طرزِ سیاست کے داخل میں نامرادی نے پکے ڈیرے لگا رکھے ہیں۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ پوری پی ٹی آئی میں کوئی سوال نہیں کرتا کہ عمران کو طاقت کے استعمال سے کس طرح جیل توڑ کر فرار کروایا جائے گا، کیا ملکی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود ہے؟ کیا عمران خان پہلا سیاسی لیڈر ہے جو ف2ج سے لڑ کر جیل پہنچا ہے؟ ڈو اور ڈائی کے فلسفے سے آج تک کون سا لیڈر جیل سے باہر نکلا ہے؟ کوئی کودن بھی ان سوالات کے درست جواب دے سکتا ہے۔ سیاست کا کوئی ادنیٰ طالبِ علم بھی آپ کو بتا سکتا ہے کہ عمران خان کو پچھلے چند برسوں میں اپنے بل بوتے پر سب سے بڑی کام یابی آٹھ فروری کے انتخاب میں ملی تھی، اور وہ کام یابی ڈنڈا برداروں کے جتھوں کے توسط سے نہیں بلکہ ایک پُرامن سیاسی عمل کےذریعے حاصل کی گئی۔ریاستی مشینری کی مخالفت کے باوجودپی ٹی آئی کی یہ انتخابی فتح کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔
اس کامیابی نے عمران خان کیلئے کئی دروازے خاموشی سے کھول دیے تھے، ہر گزرتے دن کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں رکھنا دشوار تر ہوتا جاتا، جب ایک مقبول رہ نما جیل میں ہوتا ہے تو بلا شبہ، زیرِ سطح ہی سہی، ملک میںبے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔لیکن سر پیٹنے کا مقام ہے کہ عمران خان نے اپنی سیاسی و انتخابی فتح سے یہ سبق سیکھا کہ انہوں نے ایک دفعہ پھر تواتر سے ڈو اور ڈائی کا نقارہ بجانا شروع کیا اور عملی طور پر اعلانِ جنگ کر دیا۔
حماد کہتے ہیں کہ ہم کب سے سُن رہے تھے کہ پی ٹی آئی جس طرز کی جنگی سیاست کرنا چاہتی ہے اس کیلئے لاشیں سود مند ہوا کرتی ہیں، اور پھر اسے لاشیں میسر آ گئیں۔ اگر کوئی ایک سیاسی کارکن بھی ریاستی گولی سے ہلاک ہوتا ہے تو یہ قابلِ صد مذمت ہے مگر اس اخلاقی برتری کو بھی پی ٹی آئی نے ’’سینکڑوں شہداء‘‘ کے جھوٹے ترین پروپگینڈا سے گہنا دیا ہے۔عمران خان ہماری سیاسی تاریخ کے واحد لیڈر ہیں جو اپنی جیل کو طویل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ جس دن وہ ڈو اور ڈائی کے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلیں گے، اُس دن وہ جیل سے بھی باہر نکل آئیں گے۔