میری کہانی!
تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
(گزشتہ سے پیوستہ)
جب میں نے اپنی خود نوشت ’’میری کہانی‘‘ اپنے کالم میں قسط وار شائع کرنا شروع کی تو مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ دو چار قسطوں سے زیادہ لکھ سکوں گا۔ اللّٰہ جانے میرے دل میں یہ خیال کیوں اتنا راسخ تھا کہ میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں، سو سوچا یہی تھا کہ جو دو چار باتیں یاد آئیں گی وہ لکھ کر اس کے بعد اپنے باقاعدہ کالم کا رخ اختیار کروں گا لیکن جب میںنے محسوس کیا کہ اس خود نوشت ٹائپ چیز میں قارئین بہت دلچسپی لے رہے ہیں صرف عام قارئین نہیں بلکہ خواص بھی فون پر مجھے ’’ہلاشیری‘‘ دے رہے ہیں اور بضد ہیں کہ اپنی پوری زندگی کھل کر بیان کریں تو مجھے سمجھ نہ آئی کہ میری ساری زندگی کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے، نیزیہ کہ میں بنیادی طور پر مزاح نگار ہوں یا کردار نگاری میں میری دلچسپی بہت زیادہ ہے، جس کی جھلکیاں آپ کو میرے ٹی وی ڈراموں خواجہ اینڈ سنز، حویلی، شب دیگ، شیدا ٹلی وغیرہ میں دکھائی دی ہوں گی، چنانچہ ابھی تک ’’میری کہانی‘‘ کی جو قسطیں شائع ہوئی ہیں میری شخصیت کے یہی دو رخ سامنے آئے ہیں، اللّٰہ جانے میں اپنے بارے میں کچھ بتاتے ہوئے کیوں ہچکچاتا ہوں۔ برادرم ضیا ء الحق نقشبندی نے سہیل وڑائچ اور حامد میر کے ساتھ ان کی زندگی کے حوالے سے طویل انٹرویو کئے جو کتابی شکل میں بھی سامنے آئے، اس کے بعد پیر ضیاء الحق نقشبندی میری طرف متوجہ ہوئے، میں نہ نہ کہتا رہ گیا پھر بھی وہ چار پانچ نشستیں میرے ساتھ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بقول ان کے اس کے ایک سو صفحات ان کے پاس لکھے پڑے ہیں مگر میں بور ہوگیا اور میں نے مزید ریکارڈنگ سے معذرت کرلی۔ اسی طرح ڈاکٹر عائشہ عظیم جنہوں نےمیرے ٹی وی ڈراموں کو ٹرانسکرائب کرکے کتابی شکل میں شائع کیا اور پاک و ہند کے اکابرین نے زندگی کے مختلف مراحل میں جو خطوط مجھے لکھے انہیں بھی مشاہیر کے خطوط عطاء الحق قاسمی کے نام سے کتابی شکل دی چنانچہ وہ بضد رہیں کہ آپ کی آپ بیتی بھی لکھنا ہے اور وہ بھی میرے ساتھ پانچ سات نشستیں کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ تاہم ایک بہت اعلیٰ کام شاعر، دانشور اور درویش صفت شخص ازہر منیر نے کردکھایا۔ انہوں نے میری پچاسویں سالگرہ پر مجھ سے تفصیلی انٹرویو کا پروگرام بنایا میں چونکہ اس وقت ’’بچہ‘‘ تھا چنانچہ نہ صرف ان کی باتو ںمیں آگیا بلکہ خوشی سے پھولے نہیں سمایا، سو ان کی کتاب ’’نصف صدی کا قصہ ہے‘‘ منظر عام پر آئی جو صرف میری زندگی کی اونچ نیچ کے حوالے سے نہیں میرے نظریات کے حوالے سے بھی بہت اہم کتاب ہے، اس کے علاوہ مجھ پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے جو مقالات لکھے گئے ان میں بھی میری زندگی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
پھر اللّٰہ جانے وہ کون سا مرحلہ تھا کہ میرے دل میں ’’میری کہانی‘‘ لکھنے کا خیال آیا اور اللّٰہ جانے ابھی تک کیسے لکھے چلا جا رہا ہوں، قارئین کی تعریفی سند کے علاوہ میرے وہ پڑھے لکھے احباب بھی میری کسی ادھوری بات کی تکمیل بھی کرنے لگے۔ مثلاً جب میں نے اپنے ہمسائے میں قیام پذیر شہزادی بمبا کے گھر کا ذکر کیا تو جواد شیرازی نے مجھے اس حوالےسے کچھ معلومات فراہم کیں، میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قریبی ہمسایہ ہونے کے باوجود مجھے ان کے انتقال کی خبر نہ ہوئی اور اس بارے میں بھی اپنی بے خبری کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان یا انڈیا چلی گئی تھیں۔ اس پر عزیزم، م۔ ش نے مجھے یہ خط لکھا
’’محترم قاسمی صاحب! مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی بمبا شہزادی جیل روڈوالے گورا قبرستان میں دفن ہے اس کا انگریزی شوہر شاید کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر رہا تھا ان کی اولاد نہیں تھی بمبا شہزادی کی ماں انگریز تھی اور باپ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے بھی لڑکپن میں سکھ دھرم چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور اسے انگریز پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد لاہور سے لندن لے گئے تھے‘‘۔ میرے لئے یہ اطلاع اس لحاظ سےدلی خوش کن تھی کہ م۔ ش نے میری معلومات کو ادھورا نہیں رہنے دیا۔ اسی طرح جب میں نے لاہور کی سب سے خوبصورت بستی ماڈل ٹائون کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کی بنیاد قیام پاکستان سے رکھی گئی تھی تو برادرم ڈاکٹر غافر شہزاد جو شاعر، افسانہ نگار اور نقاد ہونے کے علاوہ فن تعمیر میں پی ایچ ڈی ہولڈر بھی ہیں پاکستان میں پہلی دفعہ فن تعمیر میں کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کا اعزاز حاصل ہوا، نے مجھے خط لکھا اور اس بستی کی تاریخ بھی بیان کردی، ان کا خط ملاحظہ کریں: ’’بہت خوب، اعلیٰ یادیں، پرانا لاہور بس ایک وضاحت ماڈل ٹائون کا تصور کھیم چند کا تھا جو بیرسٹری کرنے کے لئے انگلینڈ گیا تھا جہاں گرین موومنٹ چل رہی تھی۔ بیرسٹری کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس آگیا اور ماڈل ٹائون کی بنیاد رکھی۔ کھیم چند انجینئر نہیں تھا گنگا رام نے اس کی مدد کی اور یہ رقبہ جو کہ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کا تھا یہاں ماڈل ٹائون بنا،گنگا رام اس سے پہلے کھیم چند کو ساتھ لے کر شاہدرہ بھی گیا تھا پہلے یہاں ماڈل ٹائون بسانے کی تجویز تھی جہاں آج کل راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ہے مگر یہ جگہ اس لئے چھوڑ دی گئی کہ اس وقت راوی کی سرکش لہریں اس علاقے کو سیلاب کے دنوں میں ڈبو دیتی تھیں‘‘۔
اس خط سے میرا دل خوش ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی یاد آگیا اس بستی میں حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض اور دوسرے بہت سے اکابرین بھی قیام پذیر رہے ہیں اور مجھے دو تین فرلانگ کے فاصلے سے ان کی ہمسائیگی کا شرف حاصل رہا ۔ (جاری ہے)