اب عمران حکومت مخالف تحریک چلانے کی پوزیشن میں کیوں نہیں ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ 26 نومبر 2024 کو اسلام آباد دھرنے کی ناکامی کے بعد عمران خان کے پاس ایک کامیاب حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے مولانا فضل الرحمان کی سپورٹ کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی اپنی سٹریٹ پاور ختم ہو چکی ہے، لیکن اگر مولانا پی ٹی آئی کیساتھ چلنے پر تیار نہیں ہوتے تو ایسی کوئی تحریک چلنے سے پہلے ہی ٹھس ہو جائے گی۔ ویسے بھی زیادہ امکان یہی ہے کہ عمران خان کے فائدے کی خاطر مولانا فضل الرحمان اپنے ہاتھ کاٹ کر تحریک انصاف کو نہیں دیں گے۔

جاوید چوہدری نے ایک ٹی وی پروگرام میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف دراصل اپنی حکومت مخالف تحریک کو چلانے کے لیے مولانا فضل الرحمان کی سٹریٹ پاور پر انحصار کر رہی ہے کیونکہ اب تحریک انصاف کا ورکر سڑکوں پر نکلنے سے انکاری ہو چکا ہے، ایسے میں عمران خان کا خیال ہے کہ اگر مولانا حکومت مخالف تحریک میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو ان کی تحریک کامیاب ہو جائے گی، لیکن اگر مولانا یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کے فائدے کی خاطر حکومت مخالف تحریک میں شامل نہیں ہونا تو پھر، پی ٹی آئی کچھ نہیں کر سکے گی۔ پی ٹی آئی ایک طرف مولانا کے ساتھ رابطے میں ہے تو دوسری طرف دیگر چھوٹی جماعتوں سے رابطوں کی کوشش میں ہے۔ مولانا نے تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ ملانے یا نہ ملانے کا فیصلہ کرنے کے لیے 26 اپریل کو جمعیت علماء اسلام کی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ آپ مولانا فضل الرحمان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ عمران خان اپریل کے شروع میں حکومت کیخلاف احتجاج شروع کرنا چاہتے تھے لیکن مولانا نے پی ٹی آئی کو لٹکائے رکھا اور اب اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے اپنی جماعت کا اجلاس اپریل کے آخر میں رکھ لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان اپنی مقبولیت کی وجہ سے واقعی خطرناک ہو چکے تھے، لیکن الیکشن 2024 کے بعد سے تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور بتدریج ختم ہوتی گئی جس کا منطقی نتیجہ 26 نومبر کی رات اسلام آباد میں نکلا جب بشری بی بی کی زیر قیادت دھرنے کے شرکا جوتیاں اٹھا کر فرار ہو گئے۔ اس دن کے بعد سے پی ٹی آئی کوئی موثر احتجاج نہیں کر پائی۔ انکا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اپنے اقتدار کا ایک برس مکمل کر چکی ہے اور اب چیزیں آہستہ آہستہ سیٹل ہوتی جا رہی ہیں۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ پچھلے ایک برس کے دوران پاکستان میں واقعی معاشی استحکام دیکھنے میں آیا ہے اور بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بھی کم کر دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی مشین ہوتی ہے، یہ کسی بندے کا نام نہیں ہو تی، جب مشین کا کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو اس کی جگہ نیا پرزہ فٹ کر دیا جاتا ہے اور عمران خان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پروجیکٹ عمران کامیابی کے ساتھ لپیٹ دیا ہے اور اب صرف اس کے بچے کچے پرزے سمیٹ رہی ہے۔ ویسے بھی اب روز روزانہ کے احتجاج ختم ہو گئے ہیں اور زندگی دوبارہ سے نارمل ہوتی چلی جا رہی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ آج اسلام آباد کی ساری سڑکیں کھلی ہیں، پہلے یہ سڑکیں بند ہوتی تھیں کیونکہ اب کوئی یلغار نہیں ہو رہی، پہلے مظاہرین کو روکنے کے لیے اسلام آباد کی انتظامیہ کو 10 سے 15 ہزار پولیس فورس بلانا پڑتی تھی اور کروڑوں روپوں کی شیلنگ ہو جاتی تھی۔ لیکن اب معاملات نارمل ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی کسی لانگ مارچ کی کال نہیں دے سکتی، 26 نومبر کو ریاست نے اسلام آباد میں احتجاجیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اسکے بعد سب کو اندازہ ہو چکا ہے کہ یوتھیوں کا علاج کیا ہے، انکا کہنا تھا کہ 26 نومبر کے بعد پی ٹی آئی کا کوئی ایک بھی احتجاج کامیاب ہوا ہو تو مجھے ضرور بتائیں۔ جاوید کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف والوں کو پتہ لگ چکا ہے کہ حکومت احتجاج کی صورت میں انکا علاج کس خوفناک طریقے سے کرے گی لہذا اب عمران سکون سے جیل میں بیٹھے دیسی مرغ اور مٹن پلاؤ کھا رہے ہیں جبکہ انکے ورکرز بھی گھروں پر آرام کر رہے ہیں۔

جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ویسے بھی کوئی حکومت مخالف تحریک چلانے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں کہ جس صوبے میں اس کی حکومت ہے وہاں پر عمران خان نے اپنی پارٹی خود دو دھڑوں میں تقسیم کر دی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور کو کمزور کرنے کی کوشش میں انہیں پارٹی صدارت سے ہٹا کر عمران نے خیبر پختون خوا میں اپنی جماعت دو بڑے حصوں میں تقسیم کر دی ہے۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تحریک انصاف کو توڑنے کی کوئی سازش کرے، ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کا کوئی بھی لیڈر دوسرے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ خیبر پختونخواہ کی پارٹی قیادت چیئرمین گوہر خان، سیکرٹری جنرل سلمان اکرام راجہ اور سیکرٹری انفارمیشن شیخ وقاص اکرم کو نہیں مانتی، یہ سب ایک دوسرے کو بھی نہیں مانتے۔

اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خبر پر PTI قیادت کنفیوزن کا شکار کیوں ؟

سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ اسی لیے جب پی ٹی آئی خیبر پختون خواہ کے نئے صدر جنید اکبر نے عید کے تین دن اڈیالہ جیل کے سامنے احتجاج کرنے کا اعلان کیا تو پارٹی کی مرکزی قیادت نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے، ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی جماعت توڑنے کے لیے توانائیاں ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی پی ٹی آئی پنجاب سے بھی فارغ ہو چکی ہے، اور وہاں بھی کوئی بندہ خان کی خاطر احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلتا۔

Back to top button