یوتھیوں کا فوجی عدالتوں کی سزاؤں سے بچنا ممکن کیوں نہیں ؟

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے فوجی عدالتوں کی جانب سے 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں 25 پی ٹی آئی ورکرز کو سزائیں مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنی جماعت کیخلاف ایک منظم سازش کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے فوجی عدالتوں کی سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تام قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سزاؤں کے خلاف اپیلیں مسترد ہونے کے 99 فیصد امکانات ہیں چونکہ ملزمان کے خلاف واضح ثبوت موجود ہیں۔
دوسری جانب فوجی ترجمان نے واضح کیا ہے کہ سانحہ 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں تمام شواہد کی جانچ پڑتال اور مروجہ قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد سنائی گئی ہیں۔ انکا کہنا یے کہ سزا پانے والے تمام ملزمان کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے تھے۔ آئی ایس پی آر ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ 13 دسمبر کو سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے 9 مئی کے زیرِ التوا مقدمات کے فیصلے سنانے کا حکم دیا تھا۔
ملٹری کورٹس نے 9 مئی واقعات کے الزام میں گرفتار 85 میں سے 25 ملزمان کو دو سے 10 برس تک قید کی سزائیں سنائی ہیں جب کہ تحریکِ انصاف نے انہیں مسترد کرتے ہوئے عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق پہلے مرحلے میں کور کمانڈر ہاؤس لاہور، پی اے ایف بیس میانوالی، پنجاب رجمنٹل سینٹر مردان، بنوں کینٹ، چکدرہ قلعہ، ملتان کینٹ چیک پوسٹ، جی ایچ کیو اور آئی ایس پی آر آفس فیصل آباد حملہ کیس کے ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے 13 دسمبر کو اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے، انہیں رعایت دے کر رہا کیا جائے۔ تاہم جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دیگر 60 ملزمان کی سزاؤں کا اعلان اُن کے قانونی عمل مکمل ہوتے ہی کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 9 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی ائی قیادت کی کال پر ملک بھر میں احتجاج ہوا تھا۔ اس دوران مشتعل افراد نے سرکاری و فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مکمل انصاف اُس وقت ہوگا جب 9 مئی کے افسوسناک واقعات کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا ملے گی۔ یاد رہے کہ ائی ایس ائی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بھی کورٹ مارشل کارروائی کے دوران 9 مئی کے حملوں کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اور سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ انکے کارکنان کیخلاف فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزائیں انصاف کے اصولوں کے منافی ہیں۔ ان کے بقول یہ معصوم لوگ عام شہری ہیں اور اُن پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ فوجی عدالتیں قانونی طور پر ریاست کی عدالتی طاقت کی شراکت دار نہیں ہو سکتیں۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ایسی عدالتوں کا قیام عام شہریوں سمیت عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔
تاہم عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ جن ملزمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں ان کے خلاف واضح ویڈیوز اور دستاویزی ثبوت موجود ہیں جس میں وہ فوجی تنصیبات پر حملے کرنے کے بعد وہاں توڑ پھوڑ کرتے اور گھیراو جلاو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یاد عیے کہ 9 مئی 2023 کے بعد ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق تحریکِ انصاف سے تھا۔ ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔
بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اکتوبر 2023 میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔ اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا۔ بعدازاں چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔
انٹرا کورٹ اپیل پر 29 جنوری 2024 کو ہونے والی سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے یہ معاملہ تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔ 22 مارچ 2024 کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 20 مارچ کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کے پہلے دور کا اعلامیہ جاری
سابق چیف جسٹس کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔ رواں ماہ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کی موجودگی میں سویلین کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں آئینی بینچ کو یہ کیس سننے سے احتراز کا کہا گیا تھا۔ لیکن عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا۔ بعدازاں آئینی بینچ نے 13 دسمبر کو ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی تھی۔