پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اسرائیل کا اگلا نشانہ کیوں بننے والا ہے؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ ایران، اردن اور شام کے بعد اب اسرائیل کے ہاتھوں پاکستان کی باری بھی آنے والی ہے۔ انکا کہنا یے کہ پاکستانی نیوکلیئر بم اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لیے ناقابل برداشت ہے لہازا اسے چھیننے یا تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
اپنے تازہ تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ حسن نصراللہ کی شہادت کے فوری بعد ایران نے اسرائیل پر دو سو میزائل داغ دیے۔ جواب میں اسرائیل نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی دی ہے، اگر ایران پر ایسا کوئی حملہ ہوتا ہے تو پاکستان بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا اور جنگ ہماری سرحدوں تک پہنچ جائے گی، لہذا اگلی عالمی جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے اور ہمارا پورا خطہ کسی بھی وقت دہکتا ہوا تندور بن سکتا ہے۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اسرائیل کے دائیں بائیں موجود ممالک میں شیعہ اکثریت میں ہیں جو ایران کی حفاظت میں بھی ہیں لہٰذا اسرائیل 50 سال سے شیعہ مسلمانوں سے جنگ کر رہا ہے‘ لیکن عالم اسلام صورت حال کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہا‘ اس کا خیال ہے یہ لڑائی صرف اسرائیل ایران یا یہودی شیعہ تک محدود رہے گی جب کہ اصل میں اسرائیل سعودی عرب سمیت پورے مڈل ایسٹ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے‘ اس کی نظر میں ہر مسلمان خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی، سراسر دشمن اور قابل گردن زنی ہے لہٰذا وہ اس لڑائی کو ترکی‘ پاکستان اور انڈونیشیا تک لے کر جائے گا۔ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی وقت ایران پر حملہ ہو سکتا ہے‘ ایسے میں ایران کو کسی مسلمان ملک کی بجائے روس سے مدد کی توقع ہے کیونکہ روس نہیں چاہتا کہ امریکا اور اسرائیل اس کی سرحد تک پہنچ جائیں لہٰذا وہ ایران کو فل سپورٹ کر رہا ہے۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ایران کے دائیں بائیں افغانستان‘ پاکستان‘ ترکی اور سینٹرل ایشیا جیسے طاقت ور ہمسائے موجود ہیں‘ ترک فوج اور قوم دونوں مضبوط ہیں‘ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اس کی 20 فیصد آبادی شیعہ ہے‘ اس کی فوج بھی مضبوط ہے‘ سینٹرل ایشیا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور افغانستان اب تک تین عالمی طاقتوں برطانیہ‘ سووویت یونین اور امریکا کو پسپا کر چکا ہے لہٰذا امریکا اور اسرائیل کو اندیشہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کہیں ایران کے ساتھ کھڑے نہ ہو جائیں۔ اسی خطرے کے پیش نظر ترکی اور پاکستان کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام اور فوج میں دوری پیدا کی جا رہی ہے‘ انھیں معاشی طور پر کم زور اور آئی ایم ایف کا غلام بھی بنایا جا رہا ہے تاکہ یہ کسی وقت کھل کر ایران کی حمایت نہ کر سکیں جب کہ سینٹرل ایشیا کو فوجی لحاظ سے کم زور رکھا جا رہا ہے اور ان کی حکومتیں بھی امریکا نواز ہیں‘ عرب ملکوں میں بھی بادشاہت کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے‘ تمام عرب ملکوں کے شاہی خاندانوں کو باور کرایا جا رہا ہے، ہم اگر آپ کی حمایت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو آپ کے تخت گر جائیں گے اور عوام ملک پر قابض ہو جائیں گے‘ یہ کارڈ بھی عرب ملکوں کو خاموش بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایسے میں لگتا یے کہ اسرائیل ایران پر ہلکے ہلکے حملے کرتا رہے گا‘ یہ اسے جنگ پر مجبور کرتا رہے گا تاکہ ایران کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچے اور اگر جنگ ہو گئی تو امریکا اور اقوام متحدہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیں گے‘ اسکے بعد پاکستان کی امداد میں اضافہ کر دیا جائے گا‘ بھارت کو پاکستان میں چھیڑ چھاڑ سے روک دیا جائے گا اور بی ایل اے کو ایران میں پناہ دلا دی جائے گی تاکہ پاکستان کے پاس ایران کی حمایت نہ کرنے کا جواز موجود ہو‘ اس کے ساتھ پاکستان میں شیعہ وزیراعظم آ جائے گا تاکہ اس کی 20 فیصد شیعہ آبادی کو مطمئن کیا جا سکے۔
لیکن سوال یہ ہے کیا اس جنگ کے اثرات پاکستان کو متاثر نہیں کریں گے؟ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں پاکستان خوف ناک حد تک متاثر ہو گا‘ ہم آج تک افغان جنگ کے اثر سے باہر نہیں آ سکے۔ ایران کی جنگ ہمارا رہا سہا اسٹرکچر بھی تباہ کر دے گی۔ ایران اور ترکی کے بعد ہماری باری ہے‘ اسرائیل کے لیے پاکستان کا ایٹم بم ناقابل برداشت ہے لہٰذا یہ اسے چھین کر رہے گا‘ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بھی ہمارا ایٹمی پروگرام ہے‘ یہ اسے بند کرانے کے لیے پیدا کیا گیا اور جان بوجھ کر روز بروز اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہو سکے‘ بی ایل اے بھی اس کی ایک کڑی ہے اور ٹی ٹی پی بھی۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دوسری طرف ہم پاکستانی آپس کی لڑائیوں میں مصروف ہیں اور کسی کو ملک کی ہوش نہیں۔ ہم کبھی غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں اپنی ہی سڑکیں بند کر دیتے ہیں‘ کبھی سپریم کورٹ کا گھیراؤ کر لیتے ہیں اور کبھی چیف جسٹس کی ڈونٹس کی وڈیو لیک کر کے تالیاں بجاتے ہیں‘ ہم کبھی لاہور بند کر دیتے ہیں اور کبھی راولپنڈی اور کبھی ریڈزون پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ تماشے جان بوجھ کر کروائے جا رہے ہیں‘ یہ ہنگامے سوشل میڈیا کے ذریعے ہو رہے ہیں اور ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو ایران کی حمایت کے قابل نہ چھوڑا جائے، اسے ایٹم بم سے محروم کر کے چار چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور پورے عالم اسلام کو اسرائیل کا غلام بنا دیا جائے، ایسے میں نہیں معلوم کہ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی۔