ٹرمپ کے صدر بننے سے پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی کیوں نہیں آنے والی؟

2016 میں اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے مسخرہ قرار دیے جانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شکست دی کر سب کو حیران و پریشان کر دیا تھا تو 2024 میں اسی مسخرے نے کملا ہیرس کو دھوبی پٹرا مار کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔

ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں کامیابی پر بی بی سی کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں سینیئر صحافی وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ امریکہ میں صدر کی تبدیلی کا پاکستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ وہ کہتے ہیں کہ 2016 میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ سب انتخابی اور سیاسی پنڈت کہتے تھے کہ امریکی ووٹرز اور ووٹنگ سسٹم میں لاکھ خامیاں سہی مگر اب ایسا بھی نہیں کہ ٹرمپ جیسا مسخرہ ہلری کلنٹن جیسی تجربہ کار سیاستدان کو ہرا دے۔ 2024 میں بھی ان کی جانب سے مسلسل یہی بتایا گیا کہ  ٹرمپ کی اسقاط حمل مخالف سوچ کے سبب خواتین پہلے ہی بد ظن ہیں لہٰذا وہ سب کملا ہیرس کے لیے ڈبے بھر دیں گی۔

امریکی میڈیا پر بیٹھے سیاسی تجزیہ کار صبح و شام یہی کہتے تھے کہ امریکہ کی سیانی مڈل کلاس کسی ایسے آدمی کو کیوں وائٹ ہاؤس میں گھسنے دے گی جس کی غیر ذمہ دارانہ کوویڈ پالیسی نے امریکی شہریوں اور معیشت کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا اور جس پر مختلف عدالتوں میں ہیرا پھیری، قومی رازوں کے تحفظ سے لاپرواہی اور اخلاقی نوعیت کے چونتیس مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ ان تجزیہ کاروں کا دعوی تھا کہ کہ غیر سفید فام تارکینِ وطن بھی ٹرمپ سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی  ٹرمپ کو ان سے ہے۔ لہٰذا انکا کہنا تھا کہ اس بار ٹرمپ کا جادو نہیں چلے گا۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ ٹرمپ اور کملا کے درمیان گردن توڑ مقابلہ ہے۔ سات سوئنگ اسٹیٹس میں جس کے حق میں بھی فیصلہ ہوا وہ چند ہزار یا چند سو ووٹوں سے ہی ہوگا۔ لیکن اب  جو بھی  ہے سب کے سامنے ہے۔ اہم ریاستوں میں دست بدست انتخابی لڑائی کا خواب ٹوٹی زرہ بکتر کی طرح بکھرا پڑا ہے۔ ہیلری کے بعد کملا امریکی تاریخ میں دوسری خاتون امیدوار ہیں جنہیں ٹرمپ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جہاں تک ہم جیسے لال بجھکڑ تجزیہ بازوں اور  رائے عامہ کے نام نہاد جائزہ داروں کا معاملہ ہے تو ہم  کل پھر کپڑے جھاڑ کے اٹھ کھڑے ہوں گے اور پنڈت گیری شروع کر دیں گے مگر باقی دنیا ٹرمپ کے دوسرے دور سے کیسے گزرے گی؟ شائد آپ کو یہ جاننے سے دلچسپی ہو۔ان کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ  انتہائی اسرائیل نواز سہی مگر ٹرمپ تو کھلم کھلا نیتن یاہو سے کہتا ہے کہ ’ تمہارا غزہ تمہاری مرضی ‘۔ اگر ہم میں سے کسی کو یہ امید تھی کہ غزہ کے بچوں کی لاشیں ووٹروں کو سوچنے پر مجبور کر دیں گی تو عام امریکی ووٹروں کی اکثریت فلسطین سے جغرافیائی و ذہنی طور پر اتنی ہی دور ہے جتنا ہم جنوبی سوڈان، کانگو اور میانمار میں ہونے والے انسانی المیوں سے۔ دکھ تو ہوتا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ اس کا اثر ووٹ پر پڑ جائے اور یہ آپ نے کل عملاً دیکھ لیا۔ ویسے بھی ووٹر غزہ کو ذہن میں رکھ کے دونوں میں سے کسے ووٹ دیتا؟ مگر مچھ کو یا گھڑیال کو؟ چنانچہ ووٹ معیشت، امیگریشن اور روایتی اسٹیبلشمنٹ سے بیزاری کو ملا جیسا کہ دو ہزار سولہ میں ہوا تھا۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ ٹرمپ خاندان تعمیری صنعت اور لینڈ ڈویلپمنٹ سے وابستہ ہے۔ اس کے نزدیک غزہ صرف ایک خوبصورت ساحلی پٹی ہے جس میں سیاحتی کاروبار  کے بے پناہ امکانات ہیں۔ اگر امریکہ میں دو ایوانی کانگریس بھی ریپبلیکنز کے قبضے میں آ گئی تو نیچے سے اوپر تک بیورو کریسی میں سیاسی تقرریوں کے دائرے کو توسیع دیتے ہوئے دائیں بازو کے وفاداروں سے بھرنے کے لیے قانون سازی کوشش ہو گی۔ امیگریشن پالیسیاں ٹرمپ کے گزشتہ دور کی نسبت سخت ہوں گی۔ چین سے ٹرمپ کا ہمیشہ سے اینٹ کتے کا ویر ہے۔ یعنی اگر امریکا میں بے روزگاری ہے تو اس کی وجہ سستے میں مزدوری کرنے والے غیرقانونی تارکینِ وطن اور جبری لیبر کے سبب چینی اور امریکی مصنوعات کی قیمتوں میں فرق ہے۔ چنانچہ امریکا آنے والی تمام بین الاقوامی درآمدات پر دس سے بیس فیصد محصول فوری طور پر لگایا جا سکتا ہے اور چینی مصنوعات پر ساٹھ فیصد تک ٹیکس بھی لگ سکتا ہے۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ میں صدر بننے کے بعد یوکرین کی جنگ چوبیس گھنٹے میں ختم کروا دوں گا۔ اگر یوکرین اپنا ذرا سا ٹکڑا روس کو دے دے تو اس سے کیا ہو جائے گا۔ یوکرینی صدر  کب تک ہاتھ پھیلاتا رہے گا۔کوئی تو حد ہو گی۔ امکان ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یوکرین سے رفتہ رفتہ ہاتھ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ نئی انتظامیہ شائد یہ موقف اختیار کرے کہ یوکرین ایک یورپی مسئلہ ہے لہذا روس جانے اور یورپ جانے۔ ایران کے ساتھ عالمی جوہری سمجھوتہ ٹرمپ نے ہی ختم کیا تھا۔ اگلے چار برس تک دوطرفہ مفاہمت کو فی الحال بھول جانا چاہیے۔

کیا ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکی جہاز عمران خان کو لینے آئے گا؟

ٹرمپ کے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد پاکستان کے حوالے سے وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ خان صاحب کے حامی تو بہت خوش ہیں۔ ہو سکتا ہے  کہ ٹرمپ ان کی دلجوئی کے لیے ایک آدھ ٹویٹ کر دیں یا کوئی جملہ بول دیں مگر پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے حفظِ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی آئینی ترامیم کے ذریعے ارمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کر کے ضروری بند باندھ لیے ہیں جو کم از کم درمیانے درجے کا سیلاب روک لیں گے۔ افغان سیزن ختم ہونے کے بعد فوری طور پر پاکستان ویسے بھی امریکا کی اسٹرٹیجک ضرورت نہیں ہے۔ البتہ چین امریکا چپقلش کے تھوڑے بہت چھینٹے پاک امریکا تعلقات پر کبھی کبھار پڑتے رہیں گے۔ فی الحال جونئیر لیول کے امریکی اہلکار ہی پاکستان سے ڈیل کریں گے۔ پاکستان بھی چاہے گا کہ ٹرمپ کے ہوتے اس کے اندرونی معاملات جتنے کم فلڈ لائٹ میں آئیں اتنا ہی بہتر ہے۔

وسعت اللہ کے مطابق پاکستان کو بس اگلے چار برس میں اتنا کرنا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات قائم رہیں کیونکہ بیس فیصد پاکستانی برآمدات کی منڈی امریکا ہی ہے۔ اس کے علاوہ امریکا آئی ایم ایف کے فیصلوں میں زیادہ دخیل نہ ہو۔کیونکہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں چالیس فیصد ووٹ امریکا کے ہیں۔ باقی دنیا میں ٹرمپ کیا کرتا ہے؟ سانہوں کیہہ۔

Back to top button