پہلے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں آنی چاہیے؟

اپوزیشن اتحاد نے وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان تو کر رکھا ہے تاہم آئینی اور قانونی ماہرین کے خیال میں اپوزیشن کو پہلے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک داخل کرنی چاہیئے جس کی کامیابی کی صورت میں عمران خود بخود گھر چلیں جائیں گے۔

سنیئر صحافی نصرت جاوید اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ پہلے وزیر اعظم کے بجائے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف جمع کروائی جا سکتی ہے۔ میرے گمان کی اسکی واحد وجہ یہ حقیقت ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے خلاف یا حمایت میں اراکین اسمبلی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر ووٹ نہیں دیتے بلکہ خفیہ رائے شماری میں ایک کاغذ پر تنہائی میں مہر لگا کر اسے بکسے میں ڈال دیتے ہیں۔

نصرت یاد دلواتے ہیں کہ خفیہ رائے شماری کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی تحریک انصاف کے چند اراکین اسمبلی نے مارچ 2021 میں بھی حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بجائے پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں مہر لگا کر انہیں سینٹ کا رکن بنوا دیا تھا۔ لہذا اپنی جانب داری کی وجہ سے انتہائی غیر مقبول سمجھے جانے والے اسد قیصر کے حوالے سے بھی یہی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔

بقول نصرت جاوید خفیہ رائے شماری میں اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو اپوزیشن جماعتیں یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گی کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھوبیٹھے ہیں۔ وہ ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گی لیکن اس صورت حال میں عمران خان کو استعفیٰ دینے کے بجائے قومی اسمبلی سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ لینے کا حق ہو گا۔ اگر انہوں نے یہ حق استعمال کرنے کو ترجیح دی تو اس مقصد کے لیے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو اسلام آباد لانے کی اذیت و مشقت عمران ہی کو برداشت کرنا ہوگی۔ اس عمل سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے دعوؤں کے مطابق نیوٹرل ہو چکی ہے یا نہیں۔

نصرت کہتے ہیں کہ اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جانے کے باوجود عمران خان کو یہ آئینی حق بھی حاصل ہو گا کہ وہ قومی اسمبلی سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی بجائے اسمبلی تحلیل کر دیں اور نئے الیکشن کی جانب بڑھیں۔

ایسا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کو حیران ہی نہیں بلکہ پریشان بھی کر سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا تو نئے الیکشن فقط نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کے لئے منعقد ہوں گے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں برقرار رہیں گی۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ میں برسراقتدار رہے گی اور شاید بلوچستان میں بھی بھان متی کے کنبہ والی صوبائی حکومت بھی قائم و دائم رہے۔ ایسے میں عمران خان فقط قومی اسمبلی کے لئے ہونے والے الیکشن کی مہم چلاتے ہوئے خود کو مختلف جماعتوں میں تقسیم اپوزیشن کے مقابلے میں طاقت ور ترین محسوس کریں گے۔ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ فقط قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے کو مجبور کر سکتا ہے۔ گجرات کے چودھریوں کا ممکنہ تناظر میں کردار مزید اہم ہو جائے گا۔

فقط قومی اسمبلی کے لئے نئے انتخاب پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے ہمارے سیاستدان اس کی بدولت ایک نئے قضیے میں الجھ جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں جو ”گھڑمس“ برپا ہو گا وہ عمران خان کو یہ بیانیہ فروغ دینے میں آسانی فراہم کرے گا کہ درحقیقت فقط انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ نہیں کروایا گیا بلکہ ان کے مخالف ”مافیاز“ نے نفرت سے مغلوب ہو کر ملک کو کامل سیاسی عدم استحکام کی جانب دھکیل دیا ہے۔

ایسے میں اگر عدم استحکام کی فضا گمبھیر تر ہونا شروع ہو گئی تو عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے لئے ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔“ والا ماحول بھی بناسکتے ہیں اور اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ کہ ایسا ماحول بالآخر اسٹیبلشمنٹ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ بقول نصرت جاوید بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں نئے عام انتخابات کی فضا بن رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری دانست میں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں کراچی سے اسلام آباد کی جانب بڑھتا ہوا مارچ نئے انتخاب کی تیاری کے تاثر ہی کو تقویت فراہم کر رہا ہے۔ اس مارچ کی تاریخ کافی سوچ بچار کے بعد طے ہوئی تھی۔ مارچ کی ٹائمنگ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مارچ کا حقیقی مقصد پیپلز پارٹی کو نئے انتخاب کے لئے متحرک کرنا ہے۔

Why should be a no-confidence motion against first speaker? video

Back to top button