پی ٹی آئی کی فوج سے مذاکرات کی امید پوری کیوں نہیں ہو پائی ؟

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ بیرسٹر گوہر خان کی پشاور میں ہونے والی ملاقات کے بعد پی ٹی ائی کی لیڈرشپ نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل لٹکا کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کی کوشش شروع کر دی تھی لیکن دوسری جانب سے مذید کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ بظاہر فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے پرانے موقف پر قائم ہے کہ مذاکرات ایک سیاسی عمل ہے جو حکومت کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ فوج غیر سیاسی ادارہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بظاہر عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ شروع ہونے والا مذاکراتی عمل ختم کر دیا ہے لیکن پس پردہ اب بھی پارٹی لیڈرشپ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکومتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف نے 28 جنوری کو ہونے والے مذاکراتی عمل میں شرکت نہیں کی لیکن پارٹی کی مذاکراتی ٹیم اب بھی حکومتی نمائندوں کے ساتھ بیک چینل بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اگرچہ باضابطہ بات چیت کا عمل ختم کروا دیا ہے لیکن انہوں نے بیک چینل مذاکرات کے حوالے سے اپنی پارٹی قیادت کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی۔ عوامی سطح پر دیکھا جائے تو تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول اسٹیبلشمنٹ، حکومت حتیٰ کہ پی ٹی آئی بھی بیک چینل رابطوں اور مذاکرات کی تردید کرتے ہیں لیکن حالیہ چند مہینوں کے دوران پس پردہ مذاکرات کے مختلف ادوار ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما کے مطابق عمران خان نے حکومت کےساتھ بیک چینل مذاکرات اب بھی بند نہیں کیے، انہوں نے صرف حکومت کے ساتھ باضابطہ بات چیت سے منع کیا ہے اور مذاکرات کی بحالی کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی پیشگی شرط عائد کی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ دوسری طرف سے بھی بیک چینل مذاکرات بند نہیں ہوئے۔ تاہم، تحریک انصاف کے چیئرمین بیریسٹر گوہر نے رابطہ کرنے پر بیک چینل بات چیت کی تردید کی ہے۔ انصار عباسی سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی مذاکرات پہلے ہوئے ہیں اور نہ اب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے مطالبات کا جواب نہ دینے کے باعث باضابطہ مذاکرات بند کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانا چاہتی تھی تو اسے تحریک انصاف کو ایسی پیشکش کرنا چاہئے تھی۔
یاد رہے کہ حال ہی میں تحریک انصاف کے دو رہنماؤں بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات تب شہ سرخیوں میں سامنے آئی جب عمران خان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں پشاور میں ہوئی اس ملاقات کی تصدیق کی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر نے پارٹی کے تمام معاملات اور مطالبات براہ راست جنرل عاصم منیر کو پیش کئے۔ تاہم، بیریسٹر گوہر نے بعد میں کہا کہ ملاقات میں خیبر پختونخواہ میں درپیش سیکیورٹی کے مسائل پر بات کی گئی۔
لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آرمی چیف کے ساتھ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں سیکورٹی معاملات پر بات چیت میں وہ کیوں بیٹھے تھے۔ اس سے پہلے جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مذاکرات کو مسائل کے حل کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب عمران خان نے اپنی مذاکراتی ٹیم کو حکومت کے ساتھ گفتگو سے پیچھے ہٹنے اور فوج کے ساتھ رابطے بڑھانے کی ہدایت کر دی۔
تاہم دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع اور حکومت نے بھی تردید کر دی کہ آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر کی ملاقات میں عمران خان کے حوالے سے کوئی بات چیت ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خواہ میں امن و امان کی صورتحال پر ہونے والے اجلاس کے بعد دونوں کے مابین چند فقروں کا تبادلہ ہوا تھا جس سے ملاقات کا رنگ دے دیا گیا۔ حکومت کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کا کوئی شیڈول نہیں تھا اور نہ ہی ایسی کوئی باضابطہ ملاقات ہوئی۔
اس سے پہلے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ آرمی چیف کی مختلف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ امن و امان کی صورتحال پر میٹنگ کے بعد علی امین گنڈا پور اور گوہر علی خان ارمی چیف سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا لیکن کوی باضابطہ ملاقات نہیں ہو پائی۔ حکومت کا موقف ہے کہ جنرل عاصم منیر سے چند لمحوں کی ملاقات کے دوران جب پی ٹی آئی رہنماؤں نے سیاسی مسائل پر بات کی تو آرمی چیف نے انہیں کہا کہ وہ اس حوالے سے حکومت اور سیاسی جماعتوں سے بات کریں۔ آرمی چیف نے اُنہیں کہا کہ وہ ایسے معلاملات میں نہیں پڑیں گے۔
علی گنڈاپور کی کون سی غلطی عمران خان کے لیے ناقابل معافی ہے ؟
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے تحریک انصاف کی قیادت نے فوج سے غلط امیدیں وابستہ کر لی تھیں اور حکومت کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹیں ڈالنے لگی تھی۔ تاہم اس ملاقات کے اگلے ہی روز عمران خان کو احتساب عدالت کی جانب سے 14 برس قید کی سزا سنائے جانے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ فوجی قیادت سانحہ 9 مئی کے مرکزی ملزم کے لیے کسی قسم کی رعایت دکھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسی وجہ سے آرمی چیف کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد پی ٹی آئی ذرائع کے کسی لیڈر کی کسی فوجی عہدیدار سے کوئی فالو اپ میٹنگ نہیں ہوئی۔ لیکن تحریک انصاف اب بھی پرُ امید ہے کہ فالو اپ بیک چینل میٹنگ ہوگی۔ دوسری جانب فوجی ترجمان بار بار واضح کر چکے ہیں کہ کہ فوجی قیادت کسی سیاسی جماعت سے بات چیت نہیں کرے گی کیونکہ سیاسی معاملات پر بات چیت صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی ہونی چاہئے۔