جسٹس منصور کی بجائے جسٹس امین آئینی بینچ کے سربراہ کیوں بنیں گے؟
تحریک انصاف نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس لانے میں ناکام ہونے کے بعد اب جسٹس منصور علی شاہ کو آئینی عدالت کا سربراہ لگوانے کےلیے لابنگ شروع کر دی ہے۔ جس کےلیے نہ صرف اخبارات اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ خبروں اور وضاحتوں کی صورت میں خبریں لگوائی جا رہی ہیں بلکہ ان کو آئین اور قانون کا محافظ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاہم حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے منصوبوں کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ آئینی بینچز کی تشکیل کےلیے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن میں حکومت کو اکثریت حاصل ہے اور وہ اس وقت آئینی بینچ کی سربراہی کےلیے کسی بھی ایسے جن کو تعینات کرنے کا رسک نہیں لیں گے جو بعد میں حکومت کےلیے مسائل پیدا کرے۔
ذرائع کا دعوی ہے کہ حکومت جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کی سربراہی کےلیے منتخب کر چکی ہے اور جوڈیشل کمیشن میں اکثریت کی بنیاد پر وہ انھیں سربراہ بنانے میں کامیاب بھی ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ نئے چیف جسٹس یحیی آفریدی نے عہدہ سنبھالتے ہی سپریم کورٹ کی تین رکنی ججز کمیٹی میں سے جسٹس امین الدین خان کو نکال کر ان کی جگہ جسٹس منیب اختر کو شامل کر لیا ہے۔ اس ایکشن پر لوگ حیران تھے اور اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ جسٹس یحیی آفریدی بھی جسٹس منصور علی شاہ کے راستے پر چلنے والے ہیں۔ تاہم اب حکومتی ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ججز کمیٹی میں شامل تینوں سینیئر ترین جج حضرات یعنی چیف جسٹس یحیی افریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر آئینی بینچ کا حصہ نہیں ہوں گے چونکہ وہ پہلے ہی ججز کمیٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسے میں سنیارٹی لسٹ پر چوتھے نمبر پر موجود جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کےلیے چنے جانے والے سپریم کورٹ کے ججز کی سینیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر آ جائیں گے اور اسی وجہ سے آئینی بینچ کے سربراہ بنا دیے جائیں گے۔
دوسری جانب پارلیمنٹ کی جانب سے منظورہ کردہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس یحیی آفریدی کی تعیناتی کے بعد آئینی بینچز کے قیام کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے حکومت اور اپوزیشن سے دو، دو نام طلب کر لیے ہیں جبکہ دوسری جانب چیف جسٹس کی تعنیاتی کےلیے بنائی گئی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والی پی ٹی آئی نے جوڈیشل کمیشن کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تاہم مبصرین کے مطابق اگرچہ آئینی بینچز کے قیام کے لیے جوڈیشل کمیشن میں بظاہر حکومت کی اکثریت نظر آ رہی ہے۔ تاہم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس پاکستان کا کردار اہم ہو گا۔ اگر چیف جسٹس کہتے ہیں کہ آئینی بینچز میں سینئر ترین ججز تعینات ہونے چاہئیں تو کیا چیف جسٹس کی رائے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا؟ کیا حکومت ججز کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گی یا اجلاس میں تمام فیصلے کثرت رائے سے ہی ہوں گے۔
آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق اب جوڈیشل کمیشن طے کرے گا کہ ایک آئینی بینچ قائم کرنا ہے یا ایک سے زیادہ بینچز قائم ہوں گے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین میں لکھ دیا گیا ہے کہ کم سے کم پانچ رُکنی آئینی بینچ ہو گا۔ تاہم آئینی بینچ میں کتنے اور کون سے ججز لگائے جائیں یہ فیصلہ جوڈیشل کمیشن کو کرنا ہے۔
تاہم سینئر تجزیہ کار مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ آئینی بینچز کے قیام کا کوئی تو مقصد اور معیار ہو گا۔ اگر آئینی معاملات میں مہارت رکھنے والے دونوں سینئر ججز آئینی بینچز میں شامل نہیں ہوں گے تو پھر اس پر سوال اُٹھیں گے۔مطیع اللہ جان کے مطابق حکومت کچھ ججز کو آئینی بینچز میں شامل کرنے کا رسک نہیں لے گی۔ لیکن اگر مرضی کے ججز لانے کی کوشش کی گئی تو اس سے مسائل جنم لیں گے۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ تاحال یہ بھی واضح نہیں ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کب بلایا جائے گا۔اُن کے بقول سینئر ترین جج منصور علی شاہ ملک میں موجود نہیں ہیں۔ وہ یکم نومبر کو واپس آئیں گے۔ دیکھنا ہو گا کہ عددی اکثریت سے فیصلے کیے جاتے ہیں یا پھر سپریم کورٹ کے ججز کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔
مطیع اللہ جان کے مطابق جس طرح کے حالات ہیں اس میں کجھ بھی ہو سکتا ہے اگر چیف جسٹس کہتے ہیں کہ آئینی بینچز میں سینئر ججز لگائے جائیں تو دیکھنا ہو گا کہ حکومت اس پر کیا ردِعمل دے گی۔ دوسری جانب باخبر حکومتی ذرائع یہ دعوی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ حال ہی میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تشکیل کردہ پانچ رکنی آئینی بینچ کی سربراہی کےلیے جسٹس فائز عیسی کے سب سے قابل اعتماد ساتھی جسٹس امین الدین خان کا نام تقریبا فائنل کر لیا گیا ہے جس کی حتمی منظوری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں دی جائے گی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچز قائم کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے۔آئینی ترمیم کے ذریعے اعلی عدلیہ میں ججز کی تعنیاتی اور آئینی بینچز کے قیام کےلیے 13 رکنی جوڈیشل کمیشن بنے گا۔آرٹیکل 175 اے میں کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز کمیشن کے رکن ہوں گے۔وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک رکن، سینیٹ اور قومی اسمبلی سے دو، دو ارکان بھی کمیشن کے رکن ہوں گے۔ایک خاتون یا اقلیتی رُکن بھی کمیشن کا رُکن ہو گا جبکہ ایک آئینی عدالت کا سینئر ترین جج بھی جوڈیشل کمیشن کا رُکن ہو گا۔
جسٹس منصور شاہ کا پرانی تنخواہ پر بدستور نوکری کا فیصلہ
ماہرین کے مطابق آرٹیکل 191 اے کی کلاز دو کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کےلیے نامزد ججوں میں سے سینئر ترین جج آئینی بینچز کا سینئر ترین جج ہو گا۔ آئینی بینچز کا سینئر ترین جج ہی آئینی بینچز کا سربراہ تصور ہو گا۔
واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے بعد 26 آئینی ترمیم کے تحت نیا آرٹیکل 191 اے شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 191 اے کے مطابق سپریم کورٹ کے اہم اختیارات آئینی بینچز کو منتقل کیے گئے ہیں۔آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے بجائے آئینی بینچز کے پاس ہو گا۔آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچز کے پاس ہوں گے۔