جسٹس منصور شاہ کا پرانی تنخواہ پر بدستور نوکری کا فیصلہ

نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے انتخاب کے وقت جسٹس یحیی آفریدی کے ہاتھوں سپر سیڈ ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے استعفی نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومتی حلقوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ان کے حوالے سے جو غلط فہمیاں پھیلائی گئیں ان میں کوئی صداقت نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے حامی ہیں اور ان کا اور کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔

روزنامہ جنگ سے وابستہ سینیئر صحافی فخر درانی کی رپورٹ کے مطابق جسٹس یحیی افریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان بنائے جانے کے بعد عمرے کے لیے سعودی عرب روانہ ہو جانے والے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے کہ اگر وہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بن جاتے تو وہ حکومت کو گرا دیتے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات محض قیاس آرائیاں ہیں اور ان میں خوئی حقیقت نہیں ہے۔

تاہم یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کے بارے میں حکومتی حلقوں میں شکوک تب پیدا ہوئے جب انہوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سنانے کے بعد ائینی ترامیم کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو اوپر تلے دھمکی آمیز خط لکھے۔

26ویں ترمیم نے مرضی کے فیصلے دینے والے ججز کے ہاتھ کیسے باندھے

لیکن دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ انک کی دلچسپی آئین، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے فروغ میں ہے، اور انکے کوئی ایجنڈا لے کر چلنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تاریخ خود بولے گی، اور جسٹس منصور شاہ پر حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگانے والے جھوٹے ثابت ہوں گے، سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ چاہتے ہیں ہر کوئی یہ سمجھ جائے کہ وہ مکمل طور پر غیر سیاسی ہیں اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے مفادات آگے بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق یہ کہنا بہت آسان ہے کہ کوئی جج متنازع ہے یا سیاسی ہے لیکن یہ الزام ثابت کرنا کوئی نہیں چاہتا۔ اس معاملے میں نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی انکے ماضی کے فیصلے اس الزام کی تصدیق کرتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات کا بنیادی مقصد ان کی ساکھ کو متاثر کرنا تھا اور یہ الزام نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ بے بنیاد ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان کے "عدالتی بادشاہت” اور ججوں کی سیاست بارے دیے جانے والے ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے جسٹس منصور شاہ کے قریبی حلقوں نے وضاحت کی کہ شاہ صاحب سابقہ چیف جسٹسز کے ایکشنز کے ذمہ دار نہیں ہیں، اور وہ ان کے طرز عمل کو ٹھیک نہیں دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی فیصلے کی بنیاد ہر کسی جج کو متنازع بنانا غیر منصفانہ عمل ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک سوال پر جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ وہ سپر سیڈ ہو جانے کے باوجود استعفی دینے کا ارادہ اس کیے نہیں رکھتے کہ 26ویں ائینی ترمیم کے بعد سینیارٹی چیف جسٹس کے انتخاب کی بنیاد نہیں رہی۔

Back to top button