26ویں ترمیم نے مرضی کے فیصلے دینے والے ججز کے ہاتھ کیسے باندھے
معروف لکھاری اور تجزیہ کار عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے بعد ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر من مرضی کے فیصلے دینے والے ججز آئین اور قانون کی کھونٹی سے بندھ گے ہیں۔ یہ وہی ججز ہیں جو اب تک کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے فیصلے دیتے آئے تھے کہ جن کی نہ تو آئین اور نہ ہی قانون اجازت دیتا ہو۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں آئین، آتی جاتی چیز ہے جو کبھی منسوخ ہو جاتا ہے، کبھی معطّل، کبھی زندہ دَرگور اور کبھی مفلوج۔ اِسی طرح حلف بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے عدالتی پُرکھوں نے ہمیں یہی درسِ حکمت دیا ہے کہ آئین کے ساتھ نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ چلو، عصرِ حاضر کے فرماں روا کے ساتھ چلو، ہمیں یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ اصل آئین وہی ہے جو آئین شکن ڈکٹیٹر کی مرضی کے مطابق مسخ کیا جاتا ہے اور اس کی من مرضی تشریح کی جاتی ہے۔
کیا نئے چیف جسٹس آفریدی سیاسی ججز کو کنٹرول کر پائیں گے؟
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ لوگ ہمارے عظیم پیشوا، جسٹس منیر کے بارے میں جو جی چاہے کہتے پھریں، انہوں نے رہتی دنیا تک کے لیے ہمیں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا ایسا درخشاں فارمولہ عطا فرمایا جو آنے والے زمانوں میں ہمارے لیے ہر نوع کی مشکل کشائی کی کنجی بن گیا۔ نتیجہ یہ کہ جب بھی کسی ڈکٹیٹر نے آئین کو اپنے بھاری بوٹوں تلے روندا ، ہمارے سیاہ پوش منصفوں نے اُسی آفاقی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا سہارا لیا اور اپنا راستہ ہموار کر لیا۔ جب مشرف نے اقتدار سنبھالا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹد کی حیثیت سے استعفی دے دیا۔ ایسے میں جسٹس منیر کی روح جسٹس ارشاد حسن خان کے قفسِ عنصری میں حلول کر گئی۔ اُنہوں نے نہ صرف مشرف کی آئین شکنی کو جائز قرار دیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ’’مشرف جب چاہیں، جس لمحے چاہیں، جس بھی کیفیت میں ہوں، جو بھی کہیں، وہی آئین ٹھہرے گا۔‘‘
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس منصور علی شاہ جیسے عہدِ حاضر کے جید منصفوں نے تابندہ و درخشندہ فیصلے دیے ہیں۔ دراصل آئین میں درج قانون کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ دو جمع دو چار جیسا یہ کام تو زیریں عدالت میں بیٹھا نوآموز مجسٹریٹ بھی کر لیتا ہے۔ لیکن کمالِ فن یہ ہے کہ کس طرح ایسا فیصلہ تخلیق کیا جائے جس کی اجازت نہ آئین دیتا ہو اور نہ ہی نہ قانون؟ یہ لکیر کے فقیر کسی عام جج کے بس کی بات نہیں۔ یہ انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘ جو منصف آئین کے بکھیڑوں یا قانون کے جھمیلوں میں پڑ گیا، وہ اپنے آپ سے بھی گیا اور اپنی آنے والی نسلوں کے مقدر پر بھی پانی پھیر گیا۔ لیکن افسوس کہ 26ویں ائینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان کے عوام، 63 (A) اور 12 جولائی جیسے فیصلوں سے محروم ہوجائیں گے ہمارے منصف آئین اور قانون کی کھونٹی سے باندھ دیے جائیں گے۔