کیا سعودی عرب پاکستانی مولویوں کی فنڈنگ بند کرے گا؟

قدامت پسند ریاست سعودی عرب میں جدیدیت کے فروغ کے پیش نظر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اب پاکستان میں سعودی سرپرستی میں چلنے والے مدارس کی فنڈنگ بھی بند کر دی جائے گی اور انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے مولوی بھی نسبتاً معتدل مزاج ہوجائیں گے۔ تاہم حقیقت پسند تجزیہ کار اس خوش فہمی کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ ہماری ریاست مذہبی عناصر کو اثاثوں کے طور پر استعمال کرتی ہے اس لئے یہاں انتہا پسندی کے خاتمے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کے جدیدیت پسندی کے ویژن کے مطابق ہونے والی سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کو پاکستان میں بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جن مذہبی تنظیموں کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات انتہائی خوشگوار اور قریبی ہیں وہ ان تبدیلیوں پر بالکل خاموش ہیں۔
ملک کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ان تبدیلیوں کا پاکستان پر بھی مثبت اثر پڑے گا کیونکہ سعودی عرب کی سیاست اور معاشرت نے ہمیشہ پاکستان کو متاثر کیا ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہمارے ملک میں مذہبی عناصر کو ریاستی سرپراستی حاصل ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ہمیشہ سعودی عرب اور ایران کو تنقید کی نظر سے دیکھا ہے، تاہم اب ان کی رائے بدل رہی ہے۔ ویمن ایکشن فورم سے تعلق رکھنے والی مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ سعودی جواتین کو اب جو آزادی دی جارہی ہے وہ ہمیشہ سے ان کا مطالبہ رہا ہے۔ وہاں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی ہے۔ وہ کاروبار کر رہی ہیں۔
نوکریاں بھی کر رہی ہیں۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کو ہم انتہائی مثبت سمجھتے ہیں۔ پاکستانی مزدوروں کی بہت بڑی تعداد سعودی عرب جاتی ہے جہاں سے وہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان جہاد کے دوران سعودی عرب پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ ملک بھر کے 36 ہزار سے زائد مدارس کی وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر فنڈنگ بھی کرتا رہا ہے۔
پی آئی اے کا فلائٹ سٹیورڈ ٹورانٹو سے غائب
ناقدین کا خیال ہے کہ جنرل ضیا نے اسلامائزیشن کی پالیسی بھی سعودی عرب کو خوش کرنے کے لیے اپنائی تھی جبکہ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں شریعت بل لانے کی کوشش کی، جس کا مقصد آل سعود کو خوش کرنا تھا۔ سماجی ماہرین بتاتے ہیں کہ پاکستان کے تیس لاکھ سے زیادہ مزدور سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں مقیم ہیں۔
ساٹھ اور ستر کی دھائی میں جب یہ لوگ بڑی تعداد میں سعودیہ گئے تو وہاں سے میوزک اور ٹی وی لے کر آئے۔ لیکن اسی کی دہائی میں جو پاکستانی مزدور سعودی عرب گئے وہ مذہبی شدت پسندی لے کر واپس آئے جس نے نہ صرف خیبر پختونخواہ کے معاشرے کو بلکہ پورے پاکستانی معاشرے کو متاثر کیا۔ اب جب کہ سعودی ریاست وہابی اسلام کے فروغ کو ترک کر کے جدیدیت کی طرف راغب ہو چکی ہے اور مخلوط میزیکل پروگرام کروانے کی بھی اجازت دے چکی ہے تو یقینا اس سے پاکستانیوں پر بھی اثر پڑے گا۔
خیال کیا جاتا یے کہ پاکستان میں جن مذہبی تنظیموں کو سعودی عرب سے فنڈنگ ملتی یے جب وہ بند ہو گی تو پاکستانی معاشرے میں بھی ان کا اثر و رسوخ کم ہو جائے گا۔ انکا کہنا یے کہ سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات پاکستانی معاشرے سمیت پورے عالم اسلام پر پڑیں گے۔ پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں سلفی اور دیوبندی مکتب فکر کے مدارس کی سعودی فنڈنگ بند ہو جائے گی جس کے نتیجے میں پاکستان میں سعودی نواز مولوی صاحبان معتدل مزاج ہو جائیں گے۔
تاہم حقیقت پسند تجزیہ کاروں کے خیال میں سعودی عرب میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں سے پاکستان کے مذہبی طبقے کو کوئی بڑا دھچکا نہیں لگے گا کیونکہ پاکستان میں مذہبی عناصر کی ریاستی سرپرستی جاری ہے اور اسی لیے تحریک لبیک جیسی تنظیموں سے پابندی اٹھائی جاتی ہے اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے جاتے ہیں۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ عسکری شکنجے میں جکڑی ہوئی پاکستانی ریاست ایک عرصے سے مذہبی انتہا پسندوں کو سیاسی اور سٹریٹجک مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتی چلی آ رہی ہے اور اس روش کے ترک کیے جانے کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔