کیا حکومت مینگل کے مطالبات مان کر ان کا استعفیٰ روک پائے گی ؟

اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کر نے والے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کے قومی اسمبلی کی رکنیت سے دیے جانے والے استعفے نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ سردار اختر مینگل کے استعفے کو وفاق کےلیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے سردار اختر مینگل کا استعفی منظور نہ کرنے اور بی این پی سربراہ کے تحفظات دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب مبصرین کے مطابق سردار اختر مینگل اس وقت بلوچستان کے بااثر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا پارلیمانی نظام سے علٰحیدہ ہونا نہ صرف ان کی مایوسی کی علامت ہے بلکہ اس سے پاکستان کی مرکزی حکومت کےلیے بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل نکالنے کےلیے موجود راستے بھی محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ایک ایسے وقت میں جب صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال خراب ہو رہی ہے اور ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس اگست کا مہینہ گذشتہ چھے برسوں میں سب سے زیادہ پرتشدد رہا۔ماہرین اختر مینگل جیسے رہنما کے پارلیمان سے باہر جانے کو تشویش ناک قرار دے رہے ہیں۔

اختر مینگل کے قومی اسمبلی سے استعفے کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

سینیئر تجزیہ کار اور بین الااقوامی سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی نے اختر مینگل کے استعفے کو بلوچستان کے حوالے سے سرخ جھنڈی سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اختر مینگل سے پوچھنا چاہیے کہ وہ استعفی دینے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں۔ حکومت کو صرف طاقت کے استعمال کے بجائے بلوچستان کے سیاست دانوں کے ساتھ معنی خیز بات چیت کرنی چاہیے۔ انہیں بلوچوں اور تحریک طالبان پاکستان میں فرق کرنا چاہیے۔‘

ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان کے مسئلے کا حل صوبے کے تمام سیاست دانوں کے ساتھ مشاورت سے کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔’حکومت کے پاس بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی صورت میں بہت واضح آپشن موجود ہے۔ انہوں نے خود کو تشدد سے الگ رکھا ہوا ہے اور وہ پرامن ہیں۔‘ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ لوگوں سے جڑ رہی ہیں اور ان کو خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔‘ڈاکٹر ہما بقائی نے مزید کہا کہ حکومت نے ایک موقع اس وقت کھو دیا جب ماہرنگ بلوچ خود چل کر ان کے پاس اسلام آباد آئی تھیں لیکن اب یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ان سمیت تمام بلوچ سیاست دانوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے رابطہ کرنا چاہیے۔

بلوچستان کے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ حکومت کو فوری طور پر محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اختر مینگل سے مشاورت کا عمل شروع کرنا چاہیے۔’اگر یہ تین سیاسی رہنما بلوچستان کے مسئلے پر مشاورت میں شامل نہیں ہیں تو معاملہ خراب ہے۔ اختر مینگل کے پارلیمانی نظام سے باہر آنے سے عسکریت بڑھ سکتی ہے، لہٰذا حکومت کو ان سے فوری بات چیت کرنی چاہیے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر آگے جا کر اختر مینگل ’ری ایکشنری‘ ہو جائیں یا صرف یہ کہہ دیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو اپنی جدوجہد کا من چاہا رستہ منتخب کرنے کے لیے آزاد چھوڑتے ہیں تو حالات مزید خراب ہوں گے۔‘

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب سر دار اختر مینگل نے اپنی نشست چھوڑی ہو۔بی این پی مینگل کی سیا ست اتار چڑھاﺅ سے بھری پڑی ہے سردار اختر مینگل سنہ 1997سے سنہ 1998 تک وزیر اعلیٰ بلو چستان کے عہدے پر فائز رہے لیکن پھر ن لیگ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی تھی جس پر انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا تاہم صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ بی این پی مینگل کی قیادت نے سنہ 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے خلاف احتجاجاً قومی اورصوبائی اسمبلیوں سمیت سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہو نے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت سردار اختر مینگل رکن صوبائی اسمبلی تھے جنہوں نے اپنی نشست چھوڑ دی تھی۔

سردار اختر مینگل گزشتہ کئی سالوں سے مرکز کی سیا ست کا اہم جزو بنے ہوئے ہیں۔ سیا سی تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان کے دور حکومت میں سردار اختر مینگل نے 6 مطالبات کھ بدکے عمران خان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم سال 2019 تک ان مطالبات پر عملدر آمد نہ ہونے پر عمران خان اور سر دار اختر مینگل کے درمیان دوریاں بڑھنے لگیں۔ معاملات ٹھیک نہ ہونے پر سنہ 2022 میں پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر اختر مینگل نے عمران خان کوگھر بھیج دیا۔بعد ازاں سال 2022 میں ہی پی ڈی ایم اور بی این پی مینگل کے درمیان بھی اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں اور پھر سال 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سردار اختر مینگل نے حزب اختلاف کی بینچز پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور 3 ستمبر 2024 کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے۔

خیال رہے کہ6 اکتوبر 1962 کو بلو چستان کے علا قے وڈھ میں پیدا ہونے والے سردار اختر مینگل نے سنہ 80 کی دہائی سے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 6 بار صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔پہلی بار سر دار اختر مینگل سنہ 1990 میں اپنے آبائی علا قے خضدار سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد وہ سنہ 1993 سے سنہ 1996 تک، پھر سال 1997 سے سال 1999 تک، پھر سنہ 2002 سے سنہ 2006 تک، پھر سال 2008 سے سال 2013 تک، پھر سنہ 2013 سے سنہ 2018 تک رکن صوبائی اسمبلی رہے۔اس کے بعد اختر مینگل سال 2018 سے سال 2023 تک رکن قومی اسمبلی رہے جبکہ انتخابات 2024 میں بھی خضدار سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔علاوہ ازیں سردار اختر مینگل سنہ 1997 سے سنہ 1998 تک وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے پر بھی براجمان رہ چکے ہیں۔

Back to top button