عمران خان نے اڈیالہ جیل سے فرار کا کون سا انوکھا منصوبہ تیار کیا ہے ؟
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان نے فوجی تحویل میں دیے جانے کے خطرات کے بعد جیل سے فرار کا ایک انوکھا منصوبہ تیار کیا ہے۔ کئی مشہور انگیزی ناولز کے مصنف اور لکھاری محمد حنیف بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں بتاتے ہیں کہ جس عمران خان نے پاکستان کی سیاست میں نئے انداز متعارف کرائے ہیں، اسی طرح انہوں نے اڈیالہ جیل سے فرار کا انوکھا منصوبہ سوچا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں انگلش کی جو پہلی ضخیم کتاب پڑھی تھی، اس کا نام تھا ’دی گریٹ اسکیپ‘۔ اس کتاب میں ان قیدیوں کی کہانیاں تھیں جو دنیا کی محفوظ ترین جیلوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ کوئی جیل کے گارڈ کا بھیس بدل کر بھاگا، کسی نے اپنے آپ کو دھوبی کی وین میں چھپایا، ایک ذہین قیدی بستر کی چادر سے ہینگ گلائیڈر بنا کر جیل کی فصیل کے اوپر سے پرواز کر گیا لیکن زیادہ تر کہانیوں میں قیدی سالہا سال تک خاموشی سے ایک سرنگ کھودتے تھے، اکثر پکڑے جاتے تھے لیکن کچھ خوش قسمت اپنی آزادی پا لیتے تھے۔ جو پکڑے جاتے تھے وہ جیل واپس آتے ہی ایک اور سرنگ کھودنے کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ کہانیوں کا سبق یہی تھا کہ اگر قیدی کا جذبہ سچا ہو تو دنیا کی کوئی جیل اسے فرار ہونے سے نہیں روک سکتی۔
گنڈاپور حکومت عوام کو سستی بجلی کی فراہمی میں رکاوٹ کیوں بن گئی ؟
محمد حنیف کے مطابق اسی جذبے کے تحت پاکستان کے مشہور ترین قیدی عمران خان نے بھی جیل سے فرار کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں پاکستان کی سب سے سخت جیل مچھ جیل سمجھی جاتی تھی لیکن آج کل اڈیالہ ہے، جہاں پر جیلروں کو قیدی سے ہنس کر بات کرنے پر غائب کر دیا جاتا ہے اور قیدی کا جذبہ ایسا ہے کہ آپ کو ان کی سیاست سے لاکھ اختلاف ہو لیکن ان کے جذبے سے انکے سیاسی مخالف بھی تنگ ہیں۔ حنیف بتاتے ہیں کہ عمران خان نے اڈیالہ جیل سے فرار ہونے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ عمران کے الیکشن میں اترنے سے پہلے نہ پاکستانیوں کو اور نہ زیادہ تر انگلستانیوں کو علم تھا کہ آکسفرڈ کے چانسلر کا کوئی الیکشن بھی ہوتا ہے۔ لیکن خان کے اعلان کے ساتھ ہی سب کو چانسلر کے الیکشن کا ایسے ہی پتا چل گیا، جیسے اب بچے بچے کو الیکشن میں استعمال ہونے والے فارم 45 اور فارم 47 کے بارے میں پتا چل چکا ہے۔ دراصل گوروں کے ایک قدیم ادارے کے بھولے بسرے الیکشن میں امیدوار بن کر عمران خان نے اس میں جان ڈال دی ہے۔
محمد حنیف کہتے ہیں کی منصوبہ یہ نہیں کہ عمران خان اڈیالہ جیل سے سرنگ کھودنا شروع کریں گے اور ایک دن آکسفورڈ کے چانسلر کے دفتر میں نمودار ہو جائیں گے۔ وہ رہیں گے جیل میں ہی اور جیسا کہ ان کے جان نثار سمجھتے ہیں، جیل میں رہتے ہوئے وہ مضبوط سے مضبوط تر، مقبول سے مقبول تر ہوتے جائیں گے لیکن چانسلر کا الیکشن لڑنے سے ان کا نام مغربی دارالحکومتوں میں ایک بار پھر گونجے گا۔ سب کو یاد آئے گا کہ وہ ایک شہرہ آفاق کرکٹر تھے، ان کے مداحوں کو لندن کی پارٹیاں، شاہی خاندان کے ساتھ ملاقاتیں اور سابقہ شریک حیات جمائمہ خان کے ساتھ تصویریں دوبارہ شیئر کرنے کا موقع ملے گا۔ ان کے کینسر ہسپتال کا ذکر آئے گا، یہ بات بھی یاد آئے گی کہ وہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم بھی ہیں اور اب ان پر مضحکہ خیز قسم کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ چانسلر کے انتخاب کے لیے عمران خان کے علاوہ کسی دوسرے امیدوار کا نام بھی شاید آکسفورڈ سے باہر لوگ نہیں جانتے لیکن الیکشن الیکشن ہوتا ہے، گمنام امیدوار بھی اپنا زور لگائیں گے۔
حنیف بتاتے ہیں کہ دوسری جانب ایک برطانوی اخبار نے عمران خان کے خلاف انتخابی مہم کا محاذ کھول دیا ہے۔ الزامات وہی پرانے ہیں، سلمان رشدی کے ساتھ ایک سٹیج پر بیٹھنے سے انکار، طالبان اور اسامہ کے لیے نرم گوشہ اور عورتوں کے بارے میں فرسودہ خیالات۔ ان باتوں سے آکسفورڈ کے الیکشن میں پتا نہیں ان کے کتنے ووٹ ٹوٹے گیں لیکن پاکستان میں یقیناً بڑھیں گے۔ اگر وہ یہ الیکشن جیت جاتے ہیں، تو قیدی نمبر 804 کو گوروں نے بھی اپنا لیڈر مان لینا ہے اور ہار گئے تو گوروں کی ازلی اسلام دشمنی بے نقاب ہو جائے گی۔
چانسلر کے الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہو دنیا کو یاد آئے گا کہ عمران خان ایک سیاسی قیدی ہیں اور غالباً دنیا کے حسین ترین سیاسی قیدی۔ سیاسی قیدی جیل کی سختی برداشت کر لیتا ہے لیکن گمنامی نہیں۔ تو عمران خان ایک بار پھر مغربی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوں گے۔ جو بھی سیاست دان پاکستان کی کسی جیل سے فرار چاہتا ہے، اس کی سرنگ کا راستہ جی ایچ کیو سے ہو کر جاتا ہے۔ عمران اپنا راستہ خود بنانے پر مصر ہیں۔ شاید وہ پہلے فرار ہونے والے قیدیوں کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ سیاست دانوں میں جیل سے فرار ہونے کا سب سے زیادہ تجربہ نواز شریف رکھتے ہیں۔ اٹک قلع سے فرار ہو چکے ہیں، کوٹ لکھپت سے بھی، لیکن اتنی مرتبہ فرار ہونے کے بعد اب وہ اپنے گھر جاتی امرا میں بھی اپنے آپ کو قیدی سمجھتے ہوں گے۔ اب فرار ہوں گے تو کہاں جائیں گے؟ دوسری طرف عمران خان اپنی سرنگ کھود رہے ہیں اور کوئی جیلر روک بھی نہیں سکتا۔