کیا بنگلہ دیش کی عبوری حکومت فوج کو واپس بیرکس میں بھیج پائے گی ؟
بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد نوبیل انعام یافتہ مائیکرو فنانس کے بانی 84 سالہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم ہو چکی ہے۔ تاہم نئی بنگلہ دیشی حکومت کیلئے عوام کو فوری ریلیف کی فراہمی،طاقت اور اختیار کی جنگ، ملک میں امن و امان کے قیام اور فوج کے کردار کو محدود کرنے جیسے چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔
پاکستان میں بنگلہ دیش جیسا انقلاب لانا ممکن کیوں نہیں؟
تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی قیادت سویلینز کے پاس ہوگی لیکن ابھی واضح نہیں کہ فوج کا کیا کردار ہوگا۔تجزیہ کار سمجتھے ہیں کہ فوج کا بڑا کردار ہوگا۔ یہ فوج ہی تھی جس نے احتجاج کے بعد انتہائی اہم قدم اٹھایا اور وزیراعظم سے چلے جانے کا کہا۔یہ ان کا فیصلہ تھا کہ وہ مظاہروں کو طاقت کے ذریعے دبانے میں پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کا ساتھ نہیں دیں گے، جس سے وزیر اعظم کے ساتھ ان کی مضبوط وفاداری ختم ہوئی اور ان کا زوال ہوا۔بنگلہ دیش میں بہت سے لوگ فکر مند ہوں گے کہ طویل مدتی عبوری حکومت کے دوران فوج کو قدم جمانے کا زیادہ موقع ملے گا۔ مبصرین کے مطابق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے لئے فوج کو دوبارہ بیرکوں میں واپس بھیجنا آسان نہیں ہو گا۔
دوسری جانب نئی عبوری حکومت کو ملک میں امن و امان کے قیام کا چیلنج بھی درپیش ہو گا کیونکہ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان کئی ہفتوں سے جاری جھڑپوں میں 400 سے زائد افراد جان سے گئے۔شیخ حسینہ کے فرار ہونے کے بعد پولیس نے اطلاع دی کہ مشتعل ہجوم نے ان کے اتحادیوں پر انتقامی حملے شروع کر دیے ہیں۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سفارت کاروں نے ہندوؤں سمیت اقلیتوں پر حملوں کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جسے مسلم اکثریتی ملک میں کچھ لوگ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی کے مضبوط حامی کے طور پر دیکھتے ہیں۔پولیس یونینوں کا کہنا ہے کہ ان کے ارکان منگل کو اس وقت تک ہڑتال پر چلے گئے ہیں جب تک کہ افسران کی حفاظت کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی۔
امن و امان کے ساتھ ساتھ معیشت کی بحالی بھی نئی حکومت کیلئے ایک چیلنج ثابت ہو گی۔بنگلہ دیش نے 2009 کے بعد سے اوسط سالانہ ترقی چھ فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی ہے اور 2021 میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔لیکن معاشی ترقی کے ثمرات کو غیر مساوی طور پر تقسیم کیا گیا ہے، 2022 میں سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سے 24 سال کی عمر کے 18 ملین بنگلہ دیشی بے روزگار ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شیخ حسینہ جنوری میں عام انتخابات کے بعد پانچویں بار وزیر اعظم بنی تھیں۔ تاہم ان انتخابات کی شفافیت پر سنگین سوال اٹھے تھے۔اب جب کہ نگران حکومت بن گئی ہے، تو یہ معلوم نہیں کہ نیا سیٹ اپ کتنا عرصہ کام کرے گا اور الیکشن کب ہوں گے اور اس میں کون حصہ لے گا۔نگران حکومت کو بنگلہ دیش میں حقیقی جمہوریت کی واپسی کے لیے لمبا سفر طے کرنا ہو گا۔
مبصرین کے مطابق بنگلہ دیش میں سکیورٹی اسی فوج اور پولیس کے ہاتھوں میں ہے جو مظاہروں کو کچلنے میں ناکام رہے۔شیخ حسینہ کے اقتدار سے جانے کے بعد سے پولیس چیف اور ایک اعلیٰ جنرل کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جانا شروع ہو گیا ہے۔بہت سے مظاہرین شیخ حسینہ اور ان کے اتحادیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نئے سیٹ اپ کو حالیہ ہفتوں کے واقعات کی قابل اعتماد تحقیقات کرنی ہوں گی ورنہ ایک بار پھر احتجاجی آوازیں بلند ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔