یحییٰ آفریدی کو غیر متنازعہ ہونے کی وجہ سے چیف جسٹس بنایا گیا

26ویں آئینی ترمیم کے بعد تشکیل دی جانے والی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی نے ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کو غیر متنازعہ ہونے کی بنیاد پر نیا چیف جسٹس مقرر کیا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں دو تہائی اکثریت سے یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس مقرر کرنے کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ انہوں نے ججز کی حالیہ سیاست میں کسی بھی معاملے میں خود کو متنازع نہیں بنایا اور آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیتے رہے۔

دوسری جانب سینیارٹی لسٹ میں پہلے اور دوسرے نمبر پر موجود جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب عمراندار ججز بنتے ہوئے کھل کر سامنے آ چکے تھے اور اپنے جارحانہ بیانات اور رویوں کی وجہ سے کافی متنازع ہو چکے تھے۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کی حالیہ تاریخ میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔

 26ویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد ملک سے عدلیہ کی ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کرنا تھا جس کے نتیجے میں کئی منتخب وزرائے اعظم ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر فارغ کر دیے گئے حالانکہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے۔

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے تشکیل پانے والی پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندے شامل ہیں۔ اس آئینی ترمیم کے پاس ہونے سے پہلے آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت ججوں کی تعیناتی کے لیے جو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کی سربراہی بھی وزیر دفاع خواجہ آصف کر رہے تھے تاہم اس پارلیمانی کمیٹی کا کردار ربر اسٹیمپ سے زیادہ نہیں تھا اور ججز کی تعیناتی خود ججز ہی کیا کرتے تھے۔

پارلیمان کی 12 رکنی کمیٹی میں مسلم لیگ نواز کی نمائندگی خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ اور شائستہ پرویز ملک کر رہے تھے جب کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک کو نامزد کیا گیا۔اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضی، ایم کیو ایم کی رعنا انصار، تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر علی خان اور بیرسٹر علی ظفر جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے حامد رضا بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے۔ تحریکِ انصاف نے اگرچہ اس کمیٹی کے لیے اپنے نمائندوں کو نامزد کیا تاہم اد نے چیف جسٹس کے چناؤ کے عمل میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ نئی آئینی ترمیم کے تحت موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل پارلیمانی کمیٹی کو کسی ایک جج کے نام پر اتفاق کرکے ضابطے کی کارروائی کو آگے بڑھانا لازم ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے نئے سربراہ کے انتخاب کےلیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے 22 اکتوبر کو جسٹس یحییٰ آفریدی کو نیا چیف جسٹس نامزد کر دیا جس کے بعد وزیر اعظم نے سمری ایوان صدر روانہ کر دی جہاں سے ان کا نام فائنل ہو چکا ہے۔

وفاقی وزیر قانون کے مطابق منگل کی رات ہونے والے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کو دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس نامزد کیا گیا۔

اس اجلاس میں چیف جسٹس کی تقرری کے لیے سیکرٹیری قانون کی جانب سے تین ججوں کے نام پیش کیے گئے۔ سیکرٹری قانون نے حال ہی میں منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت تین سب سے سینئر ججز کے ناموں کا پینل کمیٹی کو بھجوایا تھا۔ ان ججز میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔

بند کمرہ اجلاس میں طویل بحث کے بعد کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام پر اتفاق کرلیا۔ اجلاس کے بعد وزیر قانون نے میڈیا سے مختصر گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ جسٹس آفریدی کو دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس نامزد کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام نے جسٹس آفریدی کے نام کی مخالفت کی تاہم 8 ووٹ ان کے حق میں پڑے لہذا ان کا نام بطعر چیف جسٹس فائنل کر دیا گیا۔

8 مخصوص ججز نے سپریم کورٹ سے علیحدہ اپنی عدالت کیسے لگا لی

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے ان تین ججز میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی کا لیگل کیرئر بہت بہتر تھا کیونکہ دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں اور انھیں انتظامی تجربہ بھی حاصل تھا۔

 لیکن ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے حالیہ مہینوں میں نہایت غیر مناسب سیاسی رویہ اپنا لیا تھا جس کے بعد انہوں نے متعدد ایسے فیصلے دیے جن میں واضح طور پر ایک خاص جماعت کیلئے جانبداری نظر آتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تھا جس پر وکلا برادری نے احتجاج بھی کیا تھا۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں اس لیے وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ جسٹس منیب اختر دن گیارہ بجے تک عام مقدمات کی سماعت کے لیے دستاب ہوتے تھے اور گیارہ بجے کے بعد وہ کیسز کی سماعت نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی جسٹس منیب اختر کو جو خط لکھا اس میں ان کی گیارہ بجے کے بعد عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا جب کہ ان کے جونئیر ججز اور بالخصوص ایڈہاک ججز کے ساتھ بدتمیزی اور ناروا سلوک کا بھی ذکر کیا گیا۔

دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنے شاندار عدالتی کیریئر کو پچھلے چند ماہ میں ایک خاص سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہوئے گل کر دیا اور اب ان کا شمار بھی عمران دار ججز میں ہونا شروع ہو گیا تھا بلکہ وہ ان ججز کے سرخیل قرار دیے جاتے تھے۔

ایسے میں پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس آفریدی کو چیف جسٹس بنانے کے لیے اس لیے فوقیت دی کہ وہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی طرح نہ تو متنازعہ تھے اور نہ ہی سیاسی تھے۔

Back to top button