عدالتی جارحیت روکنے کے لیے آئینی ترمیم کیوں ضروری ہو گئی تھی؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آئین میں 26 ترمیم لانا اسلیے لازم ہو گئی تھی کہ عدالتی تجاوزات کا سلسلہ لامحدود ہوتا جا رہا تھا۔ عدلیہ نے انتظامیہ اور مقننہ ہی کو نہیں، آئین کو بھی بازیچۂِ اطفال بنا لیا تھا۔ عدلیہ سیاسی اہداف کو اپنے آئینی حلف سے بھی کہیں زیادہ عزیز جاننے لگی تھی۔ پارلیمنٹ ہمیشہ اپنے چھن جانے والے حق کیلئے لڑتی رہی ہے۔ حالیہ ترمیم بھی اٹھارھویں ترمیم کی طرف واپسی کا سفر ہے لیکن ’’آئینی بینچ‘‘ کی تشکیل کے ذریعے اُس نے ایک بڑی ’جارحانہ دفاعی جَست‘ لگائی ہے۔ اِسکا مقصد، اُس منہ زور عدالتی جارحیت کے سامنے دفاعی دیوار کھڑی کرنا تھا جو کہ ریاست کے دو بڑے ستونوں یعنی مقنّنہ اور انتظامیہ ہی کیلئے نہیں، بلکہ آئین کیلئے بھی خطرہ بنتی جارہی تھی۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کی اُونٹنی کم وبیش دوماہ تڑپنے پھڑکنے، پہلو بدلنے، بلبلانے اور دردِزہ جیسے کرب سے گزرنے کے بعد بالآخر، حکومتی اتحاد کے موافق کروٹ بیٹھ گئی ہے۔ حقیقت اب یہ ہے کہ 26ویں ترمیم آئین کے حُجلۂِ عروسی میں آ بیٹھی ہے۔ اِس ترمیم کے ذریعے کی گئی تمام تبدیلیاں پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی ہیں۔ اِن تبدیلیوں کا درجہ اور مقام اَب وہی ہے جو کہ 1973ءکے دستور میں درج شقوں کا ہے۔ پارلیمنٹ نے یہ استحقاق آئین کے آرٹیکل 239 (6) کے تحت استعمال کیا ہے جو کہتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں بھی ترمیم کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ لہازا کوئی کچھ بھی کہتا رہے، یہ پارلیمنٹ کا اختیار کُلّی ہے کہ وہ آئین میں پہلے سے موجود آرٹیکلز میں کسی بھی نوع کی تبدیلی کرے۔ شَرط صرف ایک ہی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُسے کل ارکان کی دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ خود کو ہر آئینی قدغن سے ماوریٰ اور لامحدود اختیارات کی حامل سمجھنے والی عدلیہ جس بے رحمی کیساتھ پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو آپریشن تھیٹر کے ’’تختۂِ مشق‘‘ پر ڈال کر نشتر زنی شروع کر دیتی ہے، اُس کی بھی آئین ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ ججوں کی تقرری کے اختیار کو پارلیمنٹ کے کردار سے مکمل طورپر آزاد کرنے اور خود اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے جسٹس افتخار چوہدری نے اٹھارھویں ترمیم کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا حالانکہ آئین کی شق 239 (5) قرار دیتی ہے کہ آئین میں کسی بھی ترمیم کے بارے میں کسی بھی بنا پر چاہے وہ جو کچھ بھی ہو، کسی بھی عدالت میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔لیکن عدلیہ کی جانب سے ہمیشہ یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے اور برملا اٹھایا جاتا ہے۔ آئینی ماہرین چیختے رہ جاتے ہیں کہ آئین اِس کی اجازت نہیں دیتا لیکن جج صاحبان تشریح وتعبیر کی طلسمی کُنجی سے دستور کا مقفل دروازہ کھول لیتے اور من مانی کی بساط بچھا لیتے ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم کے ساتھ عدلیہ نے یہی سلوک روا رکھتے ہوئے مقننہ کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اُنِّیسویں ترمیم کرکے اپنے اختیارات کو محدود کردے اور عدلیہ کو ججوں کی تقرری کا صوابدیدی اختیار سونپ دے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ آئین میں 26 ویں ترمیم متعارف کروانے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے پندرہ اجلاس ہوئے جن میں تمام جماعتوں نے بھرپور سرگرمی دکھائی۔ تحریک انصاف کے نمائندے، اسد قیصر، بیرسٹر علی ظفر، بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، شبلی فراز بھی ان میں شریک ہوتے رہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، ایم۔کیو۔ایم، اے۔این۔پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے اپنے اپنے مسودے دیے یا تحریری تجاویز پیش کیں۔ صرف ایک جماعت، تحریک انصاف کی طرف سے کاغذ کا ایک پُرزہ تک سامنے نہیں آیا۔ مختلف جماعتوں کی طرف سے پیش کئے گئے مسودات کے بارے میں بھی اُن کی کوئی رائے سامنے نہیں آئی۔ مولانا نے مقدور بھر کوشش بھی کی کہ کسی نہ کسی طرح تحریکِ انصاف بھی اِن ترامیم پر آمادہ ہوجائے جس کی کسی ایک شق پر بھی اُسے کوئی اصولی اختلاف نہ تھا۔ لیکن اُن کی کوئی کاوش بار آور نہ ہوئی۔ یہ واضح ہوجانے کے باوجود کہ پی۔ٹی۔آئی اُسی نوع کے تاخیری حربے اختیار کر رہی ہے جو وہ عدالتوں میں اپنے مقدمات کے بارے میں کرتی ہے، اَتمامِ حُجّت کیلئے اُسکی ہر ضد مانی گئی لیکن اپنی روایت پر قائم رہتے ہوئے اس نے عدم تعاون کا راستہ اختیار کیے رکھا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ آئینی ترمیم، عدالتی نظم کے اندر کیا انقلاب لائے گیاور اِس کے اثرات و نتائج کیا ہونگے؟ اِس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہی ہوسکے گا لیکن یہ سارا عمل غور سے دیکھنے والوں کو ضرور اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آئین میں ترمیم کس قدر مشکل کام ہے۔ مارشل لا بندوق کے زور پر آتے ہیں۔ انہیں اپنے جواز کے لئے کسی کی احتیاج نہیں ہوتی۔ عدلیہ سے رجوع ان کی’’ کشادہ ظرفی‘‘ کا مظہر ہوتا ہے۔ آمروں کو عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔ دروازہ پہلے سے ہی چوپٹ کھلا ہوتا ہے۔ سنہری حاشیوں والی سیاہ ریشمی عبائیں پہنے جج گلدستے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی التجا کے بغیر ہی وہ نہ صرف سندِ جواز عطا کردیتے بلکہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ آئین کو بھول جائیں، آپ ورقِ سادہ پر جو بھی رقم فرما دیں گے، وہی آئین قرار پائے گا۔
خود عدلیہ کیلئے بھی آئین لکھنا کوئی کارِمحال نہیں ہوتا۔ جب وہ کوئی شخصی ہدف یا جماعتی ہدف طے کرلیتی ہے تو 63 (A) کی تاویل یا 12 جولائی جیسے عجیب الخلقت فیصلوں کے ذریعے چشمِ زدن میں مرضی کے آئین تحریر کرلیتی ہے۔ اُسے تین کو پندرہ میں بدلتے اتنی ہی دیر لگتی ہے جتنی دیر یہ دو ہندسے گننے میں لگتی ہے۔ صرف پارلیمنٹ کو ،جس کا یہ بنیادی وظیفہ ہے، معمولی سے آئینی ترمیم کے لئے بھی زچگی کے کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن امید کی جانی چاہیے کہ 26ویں ائینی ترمیم عدالتی ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ کرنے اور پارلیمنٹ کی خود مختاری بحال کرنے میں کارگر ثابت ہوگی۔