بلوچستان لبریشن آرمی نے چینی باشندوں کو نشانہ کیوں بنایا؟


کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکے کے ذریعے تین چینی باشندوں کی جان لینے والی بلوچستان لبریشن آرمی یا بی ایل اے پاک چین سی پیک منصوبے اور گوادر منصوبے کی مخالف ہے اور چینیوں کو نشانہ بنا کر یہاں سے نکالنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ کراچی یونیورسٹی کے اندر ایک وین پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے لی ہے اور حملہ کرنے والی خاتون کی تصویر بھی جاری کر دی ہے۔ حملے کے وقت خاتون خودکش بمبار شاری بلوچ نے برقع پہن رکھا تھا جس کا تعلق بی ایل اے کے مجید بریگیڈ سے بتایا گیا ہے۔
دھماکے کے نتیجے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق دونوں خواتین چائنیز اساتذہ اپنے دفتر سے نکل کر گھر جانے کے لیے وین میں آکر بیٹھی ہی تھیں کہ زوردار دھماکا ہو گیا جس کے نتیجے گاڑی میں آگ لگ گئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ برقع پوش بمبار نے وین کے پاس پہنچ کر خودکش جیکٹ پھاڑ دی تھی۔
یہ خودکش دھماکا دو بجے کراچی یونیورسٹی کے کامرس ڈیپارٹمنٹ کے باہر ہوا جس میں چار افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں تین عدد چینی باشندے بھی شامل ہیں جن میں ایک مرد اور دو خواتین تھیں۔ دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی چائنیز باشندوں کی وین برقع پوش خاتون کے قریب پہنچ کر جامعہ کے گیٹ سے اندر جانے لگتی ہے، وہ خود کو دھماکے سے اڑا لیتی ہے۔ دھماکے کا نشانہ بننے والی وین چینی لینگویج انسٹی ٹیوٹ کی تھی اور مرنے والے اساتذہ کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان سکھاتے تھے۔
جامعہ کراچی کے ترجمان کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں ڈائریکٹر ہوانگ گی پنگ، ڈنگ مو پینگ، چین سائی، اور ڈرائیور خالد شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں وینگ یوکنگ اور گارڈ حامد شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اس خود کش دھماکے کی ذمہ داری لینے والی بلوچ قوم پرست عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔ تاہم فوجی آمر ضیاالحق کے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنمائوں سے مذاکرات ہوئے اور مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر ایک اور فوجی آمر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد سال 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کا دائرہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی۔
2006 میں مشرف کے حکم پر نواب اکبر بگٹی کی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا اور نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔
نومبر 2007 میں بالاچ مری کی ہلاکت کی خبر آئی اور بی ایل اے کی جانب سے کہا گیا کہ وہ افغانستان کی سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز سے ایک جھڑپ میں مارے گئے۔ بالاچ مری کی شہادت کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے برطانیہ میں مقیم ان کے بھائی نوابزادہ حربیار مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جانے لگا، تاہم نوابزادہ حربیار کی جانب سے کسی مسلح گروہ کی سربراہی کے دعوئوں کو سختی کے ساتھ مسترد کیا جاتا رہا۔ نوابزادہ بالاچ مری کی موت کے بعد بی ایل اے کی قیادت میں جو نام ابھر کر سامنے آیا وہ اسلم بلوچ عرف اچھو کا تھا۔ اس کا شمار تنظیم کے مرکزی کمانڈروں میں کیا جانے لگا۔
اسلم بلوچ کے سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں زخمی ہونے کے بعد علاج کی غرض سے انڈیا جانے پر اس کے تنظیم کے دیگر رہنماؤں سے اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ صحت مند ہونے کے بعد اسلم بلوچ بلوچستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں مقیم رہا۔ اسلم بلوچ کے دور میں ہی بی ایل اے میں ان کے زیر اثر گروپ کی جانب سے خود کش حملے بھی شروع کر دیئے گئے جن کو تنظیم کی جانب سے فدائی حملے قرار دیا جاتا رہا۔ ان حملوں کا ہدف زیادی تر غیر ملکی، خصوصاً چینی باشندے ہوتے تھے۔
بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر زدالبندین کے قریب کیا تھا۔ اس حملے میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے افراد کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا اس پر چینی انجنیئر بھی سوار تھے۔ اس کے بعد کالعدم بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ تین خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا۔
اس حملے کے بعد ہی قندھار میں ایک خودکش حملے میں اسلم اچھو کی ہلاکت کی خبر آئی۔ چنانچہ بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھال لی۔ قیادت میں تبدیلی کے باوجود تنظیم کی جانب سے ’فدائی‘ سکواڈ کی کارروائیوں کا سلسلہ رکا نہیں اور گوادر میں پرل کانٹینیٹل ہوٹل پر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے ایسا ہی ایک حملہ کیا۔ مجید بریگیڈ مجید بلوچ نامی شدت پسند کے نام پر تشکیل دیا گیا جس نے 1970 کی دہائی میں تب کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملے کی کوشش کی تھی۔

Back to top button