حمزہ شہباز کا حلف ہائی کورٹ میں کب تک لٹکے گا؟


آئین شکن کپتان کے ساتھی گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے نئے وزیر پنجاب حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کے بعد اب یہ معاملہ عدالت میں بھی لٹک گیا ہے اور چیف جسٹس امیر بھٹی تاریخ پر تاریخ دیے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں پنجاب کا آئینی بحران ختم ہونے کی بجائے سنگین ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ حمزہ شہباز کو امید تھی کہ 21 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کا کوئی حل نکال لے گی لیکن چیف جسٹس امیر بھٹی نے یہ معاملہ 22 اپریل پر ڈال دیا ہے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو طلب کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ گورنر کے علاوہ صرف سپیکر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز سے حلف لے سکتے ہیں لیکن پرویز الہی ایوان میں بری طرح شکست کھانے کے بعد کسی صورت ایسا کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے حمزہ کا بطور وزیراعلی الیکشن بھی تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے اور یہی موقف گورنر پنجاب نے بھی اپنایا ہوا ہے، تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے حلف کا معاملہ حل کرنے کی بجائے لٹکانے چکے جانے پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کیوں کہ 16 اپریل کو وزارت اعلی کا الیکشن چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر کروایا گیا تھا۔
دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کے خلاف مسلم لیگ ن اور ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد جمع کرارکھی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے 16 اپریل کے اجلاس پر بھی تنازع ابھی ختم نہیں ہو پایا ہے جو قائد ایوان کے انتخاب کے لیے بلایا گیا تھا۔ 16 اپریل کو وزیر اعلی کے الیکشن کے بعد ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے موخر کیا تو سپیکر پرویز الہی نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اجلاس دوبارہ 28 اپریل کو طلب کر لیا تھا۔ سیکریٹری ہنجاب اسمبلی کے مطابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ آئینی طور پر سات دن کے بعد کرائی جا سکتی ہے لہذا اس معاملہ پر ابھی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی۔
اس صورتحال میں پچھلے تین ہفتوں سے صوبہ پنجاب بغیر کسی وزیراعلی کے چل رہا ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ جلدی حل ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں لہذا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ بھی عدالتوں تک جانے کا امکان ہے۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں عددی اعتبار سے سپیکر چوہدری پرویز الہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ حمزہ شہباز نے 16 اپریل کو 199 ووٹ حاصل کیے تھے، جو کہ مطلوبہ اکثریت سے کہیں زیادہ تھے۔ سپیکر اورڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے طریقہ کار بارے سیکریٹری اسمبلی محمد خان بھٹی نے بتایا کہ ’پہلے تحریک انصاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف جمع کرائی گئی تو قانونی طور پر پہلے اس پر ووٹنگ ہوگی اور جس اجلاس میں ووٹنگ ہوگی اس کی صدارت سپیکر چوہدری پرویز الہی کریں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ڈپٹی سپیکر کی جانب سے 16 اپریل کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا گیا تھا جو ان کا اختیار نہیں تھا کیوں کہ گورنر کی جانب سے بلایا گیا اجلاس ڈپٹی سپیکر غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں کر سکتا، لہذا اب سپیکر نے آئینی طور پر وہی 40 واں اجلاس 28 اپریل کو دوبارہ طلب کرلیا ہے اور ڈپٹی سپیکر نے بھی اتفاق کیا ہے۔‘
سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کے وفادار سمجھے جانے والے محمد خان بھٹی کہتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کے بعد سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ بعد میں ہوگی جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر نہ ہونے کی صورت میں پینل آف چیئرمین کرسکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ آئندہ بلائے گئے اجلاس کے ایجنڈے پردونوں میں سے کسی کے بھی خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شامل نہیں اسلیے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی 75 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گورنر نے منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ کہ آئینی طور پر گورنر کی غیر موجودگی یا اسکے انکار پر حلف دلوانے والا دوسرا فرد سپیکر اسمبلی خود حمزہ شہباز کے خلاف امیدوار تھا لہذا وہاں سے بھی حلف دلوانے سے انکار ہے۔ چنانچہ صوبہ پنجاب مسلسل غیر وزیراعلی کے چل رہا ہے اور تمام انتظامی معاملات تھپ ہو چکے ہیں۔ تاہم یہ معاملہ زیادہ دیر لٹکایا نہیں جا سکتا اور اس کا فیصلہ ہو کر رہنا ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو اس وقت اکثریت کی حمایت حاصل ہے لہذا ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی کیوں کہ پی ٹی آئی کے پاس زیادہ اراکین کی حمایت نہیں رہی۔ اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ حمزہ کے حلف کے بعد بھی دوست مزاری ہی بطور ڈپٹی سپیکر برقرار رہیں۔ اسی طرح پرویز الہی کے خلاف مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی تحریک عدم اعتماد آسانی سے کامیاب ہو جائے گی، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی طرح اگر پنجاب اسمبلی کے پی ٹی آئی اراکین مستعفی نہ ہوئے تو حالات مسلسل خراب رہیں گے اور ایوان میں اجلاس منعقد کرانا مشکل رہے گا۔ وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ فوری مشتعل ہو جاتے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے 16 اپریل کو بھی کیا تھا اور اسی لیے پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایوان کے اندر پولیس کو بلانا پڑ گیا۔
پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح آئینی پہلو نکال کر پنجاب میںنحمزہ کی زیر قیادت مسلم لیگ ن اور اسکے اتحادیوں کو ٹف ٹائم دیا جا رہا ہے، یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور معاملات اب ایوان کی بجائے عدالت میں ہی حل ہوں گے جس سے آئینی بحران ختم ہونے کی امید تو ہے مگر جلدی نہیں بلکہ اس میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، بنیادی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کو بحران حل کرنے میں کوئی جلدی نہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ چیف جسٹس امیر بھٹی کے چودہری پرویزالٰہی سے قریبی تعلقات بھی ہوں۔
یاد رہے کہ 21 اپریل کو حمزہ شہباز کی دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے انکے وکیل خالد اسحاق نے کہا کہ ’گورنر پنجاب اکنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’قانون کے مطابق وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا سارا پراسس مکمل ہو چکا ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے متعلق نتائج گورنر پنجاب کو بھجوا دیے۔ لیکن گورنر پنجاب اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہ کر کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لیکن ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست پر مذید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ان کے عہدے پر بحال کرنے کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ اگر یہ درخواست وزیر اعلی عثمان بزدار کی جانب سے آتی تو اسے سنا جا سکتا تھا لیکن چونکہ درخواست گزار غیر متعلقہ فریق ہے لہذا یہ قابل سماعت نہیں۔

Back to top button