خیبرپختونخوا میں شکست: اگلا الیکشن بھی خطرے میں پڑ گیا


خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں حکمران جماعت کی عبرتناک شکست کے بعد 8 برس سے صوبے میں برسر اقتدار وزیر اعظم عمران خان کی تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں کیونکہ بلدیاتی الیکشنز کے نتائج کو 2023 میں ہونے جا رہے عام انتخابات کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے مکمل اور حتمی سرکاری نتائج آنے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں حکومتی جماعت کی شکست کے بعد مستقبل میں باقی صوبوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور الیکشن 2023 کے نتائج بھی کوئی مختلف نہیں ہوں گے۔ الیکشن شکست کے بعد خیبر پختونخوا کے کئی وزرا نے تسلیم کیا ہے کہ عوام نے ہوشربا مہنگائی کے کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے ان کی جماعت کے امیدواروں کو مسترد کیا ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے سترہ شہروں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے نتائج میں تحریک انصاف کو سخت دھچکا پہنچا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پشاور کے عوام نے میر کی سیٹ پر بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کو مسترد کر دیا ہے جو جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کے ہاتھوں 11 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے ہار گیا ہے۔ تاہم پشاور کے 6 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ انتخابات کے اعلان کی وجہ سے یہاں کا رزلٹ روک لیا گیا ہے لیکن اسکے باوجود پی ٹی آئی امیدوار کے جیتنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اب تک کے نتائج کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کے امیدوار بیشتر شہروں میں سبقت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں نے بھی کافی اچھی پرفارمنس دی ہے۔
اب تک کے بلدیاتی انتخاب میں 24 تحصیلوں کے ریٹرنگ افسران کے نتائج موصول ہو گئے ہیں جس میں 24 میں سے 12 میں جے یو آئی کے امیدواروں کو جیت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کو چار، اے این پی کو تین ،آزاد امیدوار کو ایک اور مسلم لیگ نواز بھی تین نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ کوہاٹ اور بنوں تحصیل میں بھی جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار آگے ہیں۔ مردان میں عوامی نینشل پارٹی جبکہ نوشہرہ میں پی ٹی کے امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا اتفاق ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بطور کور کمانڈر پشاور تقرری کے باوجود خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو بڑا دھچکا لگ گیا ہے۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے مطابق مئیر پشاور کی سیٹ پر جے یو آئی (ف) کے زبیر علی نے 62 ہزار 388 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، پی ٹی آئی کے رضوان بنگش 50 ہزار 669 جبکہ پیپلز پارٹی کے زارک ارباب نے 45 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح جے یو آئی (ف) کے امیدوار نے 2018 کے عام انتخابات میں صوبے میں دو تہائی اکثریت لینے والی جماعت کو پشاور سٹی میئر کے انتخاب میں ساڑھے 11 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔
قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق مجموعی طور پر بھی تحریک انصاف کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں کو مشترکہ طور پر برتری حاصل ہے۔ صوبے کے 17 اضلاع کی 66 تحصیلوں میں سے 52 کے موصول ہونے والے غیر حتمی نتائج میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 13، عوامی نیشنل پارٹی کو 9، مسلم لیگ (ن) کو 2 جبکہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی ایک، ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ پی ٹی آئی اب تک گیارہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدواروں نے بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے 13 نشستیں حاصل کیں۔
ابتدائی نتائج کے مطابق جے یو آئی (ف) کوہاٹ میں بھی میئر جبکہ اے این پی مردان کے سٹی میئر کی نشست حاصل کرتی ہوئی نظر آرہی ہے، صوبے کے 17 اضلاع کی 66 تحصیلوں میں انتخابات کا اعلان ہوا تھا، تاہم بنوں، درہ آدم خیل اور صوبائی کی ایک ایک تحصیل پر انتخاب ملتوی ہوا۔ چھ سال کے وقفے کے بعد ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں تشدد اور حملوں کے چند واقعات ہوئے جن میں 5 افراد ہلاک جبکہ کچھ پولنگ اسٹیشنز کو تباہ کر دیا گیا۔
تحریک انصاف کے صوبائی وزرا شوکت یوسفزئی اور عاطف خان سے جب مقامی صحافیوں نے تنائج پر سوال کیا کہ تحریک انصاف کو اپ سیٹ کیوں ہو رہا ہے تو انہوں نے مہنگائی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ‘ہار جیت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے لیے مہنگائی کی وجہ سے مشکل رہی اور عوام نے حکومت پر اپنا غصہ نکالا۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ مہنگائی کو کم کیا جائے۔ عمران خان کو بھی اس بات کا احساس ہے۔ کچھ ایسا ہی جواب عاطف خان نے دیا جن کے مطابق ‘جس طرح کے نتائج آئے ہیں اس کی اصل وجہ مہنگائی ہے۔’ لیکن دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان نتائج کے پیچھے ٹکٹوں کی تقسیم اور اندرونی لڑائیوں کا بھی ہاتھ ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر محمود جان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس موقف کی تائید کی اور کہا کہ ‘میرے اپنے حلقے کا ایم این اے نور عالم خان اپنے سالے، جو جے یو آئی کا امیدوار تھا، کی کھلم کھلا حمایت کر رہا تھا۔ ساتھ والے حلقے میں بھی ایم پی اے ایک آزاد امیدوار کی حمایت کر رہا تھا۔’ انہوں نے کہا کہ ‘جن کو بلے نے عزت دی وہ کچھ روپوں اور اپنے مقاصد کے لیے بک گئے ہیں اور انھوں نے پارٹی کو سپورٹ نہیں کیا۔’
پشاور کے سینیئر صحافی عرفان خان نے بتایا کہ پشاور اور کچھ دیگر اضلاع میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے چناؤ پر جماعت کے اندر اختلافات رہے ہیں جن کی وجہ سے حکمران جماعت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی۔ انھوں نے کہا کہ اس کے برعکس جے یو آئی ایف نے تین سال محنت کی اور لوگوں سے رابطے بحال رکھے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی اچھی رہی۔
واضح رہے کہ ماضی میں جے یو آئی ایف خیبر پختونخوا صوبے کے جنوبی اضلاع تک ہی محدود دہی لیکن اس مرتبہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں صوبے کے مرکزی علاقوں جیسے پشاور، چارسدہ اور صوابی میں اپنی پوزیشن بہتر کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ماضی میں جمعیت دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر کامیابی حاصل کرتی رہی لیکن اس مرتبہ تمام مذہبی جماعتیں اپنے طور پر مقابلے میں اتریں اور بعض حلقوں میں جمعیت اور جماعت اسلامی کے امیدوار آگے پیچھے رہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں سال 2013 کے بعد سے پی ٹی آئی واحد بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی اور صوبائی اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ ماضی میں بلدیاتی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کا ہی پلڑا بھاری رہا۔ عرفان خان کے مطابق گذشتہ روز ہونےو الے انتخابات میں لوگوں کا رجحان ملا جلا رہا لیکن ماضی میں جو حمایت پی ٹی آئی کو حاصل تھی وہ اب نظر نہیں آئی۔ ‘اس مرتبہ ووٹرز تقسیم تھے۔’ عرفان خان کے مطابق جمعیت کے علاوہ عوامی نینشل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا اور اگر کہا جائے کہ ان جماعتوں نے پی ٹی آئی کے آنے سے پہلے والی پوزیشن دوبارہ حاصل کر لی ہے تو غلط نہیں ہوگا.

Back to top button