روس اورایران میں 40 ارب ڈالر کاتوانائی معاہدے طے
روس اور ایران میں 40 ارب ڈالر کاتوانائی معاہدے طے پاگیا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ میں ایران کی وزارت تیل کےحوالے سے بتایا گیا کہ ملکی نیشنل ایرانی آئل کمپنی (این آئی او سی) اور روسی گیس پروڈیوسر کمپنی گیس پروم نے تقریباً 40 بلین ڈالر مالیت کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ دونوں ملکوں کی کمپنیوں کے مابین یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں طے پایا ہے، جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن تہران میں موجود ہیں۔
رپورٹ کہاگیا ہے کہ ایران کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق روسی کمپنی ایران کی نارتھ پارس گیس فیلڈز اور چھ دیگر آئل فیلڈز کی ترقی میں ایرانی نیشنل کمپنی کو مدد فراہم کرے گی۔ یہ روسی کمپنی ایرانی مائع گیس ( ایل این جی) کے دیگر منصوبے مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی پائپ لائنوں کی تعمیر میں بھی مدد فراہم کرے گی، جن کے ذریعے تہران حکومت ملکی گیس برآمد کرنا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے پاس روس کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے گیس کے ذخائر ہیں لیکن یہ ملک مغربی پابندیوں کی وجہ سے ابھی تک ان سے مکمل فائدہ حاصل نہیں کر پایا۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران جدید ٹیکنالوجی خریدنے سے قاصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں گیس برآمد کرنے کی صلاحیت بہت سست رفتاری سے ترقی کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایران اور روس کے مابین دیرینہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ شام جیسے ملک میں بھی یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔
جرمن اخبار ‘دی سائٹ‘ کے مطابق یوکرین جنگ کے بعد ایران اور ترکی دونوں ہی روس کے لیے مزید اہم ہو گئے ہیں اور ایسا خاص طور پر معاشی مفادات کی وجہ سے ہے۔ اس جرمن اخبار کے مطابق پہلے کنٹینروں سے لدی روسی ٹرین ماسکو کے مضافاتی چیخوف کے علاقے سے چلتی تھی اور سینٹ پیٹرزبرگ کی بندرگاہ تک پہنچتی تھی لیکن اب یہی کنٹینر تقریبا چار ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بھارت تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ کنٹینر بذریعہ ٹرین قازقستان اور ترکمانستان کے راستے ایران گئے اور وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے بھارت تک پہنچائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی اور روسی میڈیا نے اسے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔ شمالی جنوبی روٹ کا یہ ایک ایسا منصوبہ ہے، جو برسوں پہلے ماسکو میں شروع ہوا تھا اور پھر اسے بھلا دیا گیا تھا۔ اب اس منصوبے میں نئی روح پھونکی گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق روسی صدر مغربی دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس متبادل راستے موجود ہیں۔