دھونکل شریف کا مرید اور اقبال احمد کی نصیحت

تحریر : وجاہت مسعود

بشکریہ: روزنامہ جنگ

خطہ پاکستان بالخصوص منطقہ پنجاب تاریخ انسانی میں فروغ شرافت کےلیے جانے جاتے ہیں۔ اس وادی سرسبز و آب شیریں میں ہر دوسرا قصبہ اور ہر تیسرا گاؤں ’شریف‘ کے لاحقے سے متصف ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکپتن شریف نامی قصبے کے مرجع خلائق ہونے کے اسباب تو آپ جانتے ہیں۔ کچھ علمائے تاریخ کی رائے میں تخلیق کائنات کے بعد اجزائے ہستی کے جو حصے بچ رہے ان میں شرافت کا ذخیرہ مقدار میں سب سے زیادہ تھا۔

حکم ہوا کہ یہ غیرمرئی برادہ پنجاب میں معدنی ذخیرے کے طور پر شامل کردیا جائے۔ اگرچہ کچھ بدخواہ آپ کے نیاز مند کو بوجوہ شریف نہیں گردانتے لیکن حال من بر شما پوشیدہ نیست۔ ’ربا میرے حال دا محرم توں‘۔ ساٹھ برس پہلے ہمارے ضلع کی تین تحصیلیں تھیں، گوجرانوالہ، حافظ آباد اور وزیر آباد۔ آپ کی دعا اور محکمہ پولیس کے تعاون سے ہر تحصیل مخصوص جرائم نیز خانقاہوں کےلیے جانی جاتی تھی۔ وزیر آباد سے کوئی پندرہ میل کے فاصلے پر دھونکل شریف کی درگاہ واقع تھی اور میرے بزرگ اسی چشمہ معرفت سے رشتہ عقیدت رکھتے تھے۔ کوئی دس برس کی عمر میں پہلی بار عرس شریف میں شرکت کا موقع ملا۔

جادونگری!!

 اللّٰہ اللّٰہ! ایک طرف جلتے سورج تلے میلے کپڑوں میں ملبوس افتادگان خاک کا جم غفیر تھا جن کی شکم پری کےلیے شلجم اور چنے کی دال کا ملغو بہ پک رہا تھا۔ کچھ دور مرغ مسلم اور دیگر نعمتوں کی دیگیں قطار اندر قطار بہار دے رہی تھیں۔ عامتہ الناس سے مناسب فاصلے پر حاکمان وقت کےلیے خاص خیمے گڑے تھے ۔بدگمانی مناسب نہیں لیکن خبر تھی کہ سورج ڈھلنے کے بعد عوام کھلے میدان میں قوالی سنیں گے۔

 زعما کے خیموں میں اہتمام کے بارے میں ’ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا‘ ہی کا سہارا میسر تھا۔ انسانوں کے درمیان تقویٰ کو اونچ نیچ کی واحد بنیاد قرار دینے والی ہستی کے نام لیواؤں کا یہ عمل درویش کے خیالات میں مفید تبدیلی کا باعث بنا۔

اس خطے کی تاریخ میں خانقاہ اور حکمرانی کا رشتہ پرانا ہے ۔ بیرونی حکمران رخصت ہوئے تو مخبری کا یہ بندوبست آمریت کی حمایت میں مبدل ہو گیا ۔ مارچ 1988 ء میں ایک صاحب کو ستارہ امتیاز پانے کے لیے ہندوستان سے پاکستان آنا تھا۔ خبر آئی کہ ایک محرم اقتدار مولانا صاحب جنرل ضیا سے شکوہ کرنے تشریف لے گئے کہ صدر مملکت نے ایئرپورٹ پر بنفس نفیس ہندوستانی پیر صاحب کا خیر مقدم کیوں نہیں کیا۔

یہ وہی پیر صاحب تھے جن کی معروف کتا ب ’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘ کا پیش لفظ سید قطب نے لکھا تھا اور عصر حاضر کی مادی ترقی کو جاہلیت اور اخلاقی زوال کا استعارہ بتایا تھا۔ ایوب خان کے دفتر کے باہر پیر صاحب دیول شریف اور پیر صاحب مانکی شریف میں ہاتھا پائی اور تبادلہ مغلظات کےلیے ارشد سمیع خان کی کتاب کا صفحہ 78ملاحظہ فرمائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور بینظیر کے روحانی رہنما تو سامنے کی بات ہیں۔ تعجب ہے کہ آصف علی زرداری کو ایوان صدارت پہنچے سات مہینے گزر چکے ۔ گوجرانوالہ کے پیر اعجاز صاحب کی کوئی خبر نہیں۔

خدا جانے محترم صدر کی بلائیں دور کرنے کا منصب کس کے سپرد ہے۔یہ بھی معلوم نہیں کہ ٹیلی ویژن پر رو رو کر صاحبان اقتدار کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیں مانگنے والے صاحب ان دنوں خاموش کیوں ہیں۔ ضیاالحق کے عہد میں نشریاتی اداروں پر کھیلوں اور مذہبی پروگراموں کی بہتات کا زریں خیال لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن کے ذہن رسا کا کرشمہ تھا۔ باکسر محمد علی اور انوکی پہلوان کے قصوں سے اخبار ات کے صفحے سیاہ کئے جاتے تھے۔

گزشتہ دنوں اسی طرح کی ایک ہستی کا ملک عزیز میں ورود ہوا ۔ یہاں ان کی گل افشانیاں اب بچے بچے کی زبان پر ہیں ۔ واقعاتی تفصیل سے ہٹ کر کچھ سوال پوچھنا ہیں۔ ہماری رہنمائی فرمائی جائے کہ علم کسے کہتے ہیں۔یہ معلومات، مشاہد ے اور مہارتوں کی مدد سے علت اور معلول میں تعلق دریافت کرنے کی جستجو ہے یا بخشندہ روایات کو دہرانے کی مشق ۔ ایک سوال یہ ہے کہ سائنسی منہاج کی ابن رشد، ابن خلدون سے لے کر برونو اور گلیلیو تک مخالفت کرنے والے سائنسی فکر کی ذیلی پیداوار یعنی ایجادات سے استفادے کو کس دلیل کی بنیاد پر جائز سمجھتے ہیں۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ علم اور انکسار میں ناگزیر تعلق ہے۔

 علم میں جس قدر ترقی ہوتی ہے ، کم علمی کا احساس اسی قدر فزوں ترہوتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ اپنے چٹکی برابر علم کو نشان افتخار سمجھتے ہیں اور اس رعونت میں عام انسانوں سے معاملت کے بنیادی آداب بھی فراموش کر دیتے ہیں ۔ کیا قیامت ہے کہ یہ اصحاب جبہ و دستار انسانو ں میں رنگ ، نسل ، زبان ، صنف اور عقائد کی بنیاد پر ناگزیر تنوع کو رواداری میں بدلنے کی بجائے تفرقے کوبنیاد بناتے ہیں۔

صدیوں سے مذہبی درس گاہوں میں مناظرے کو ایک مہارت کے طور پر سکھایا جاتا تھا۔ مناظرے کا مقصد حقیقت کی جستجو نہیں بلکہ علم الکلام کے بنے بنائے اوزار کی مدد سے مخالف کو زچ کرنا تھا ۔ مناظرہ ایک گزری ہوئی دنیا کا نشان ہے۔ یہ مکالمے کا عہد ہے۔ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھتے ہوئے متنوع مفادات کو اس طریقے سے مرتب کرنا کہ دنیا میں ناگزیر اختلافی زاویوں کو مشترکہ فائدے کی صورت دی جا سکے۔درویش نوجوانی میں انگرسول اور جیکب میکابے کی تحریروں پر لہلوٹ تھا۔ 1998ء کی ایک شام اسلام آباد میں ڈاکٹر اقبال احمد سے علمی استفادے کےلیے حاضر ہوا ۔ پوچھا کہ آج کل کیا پڑھ رہے ہو۔ میں نے کچھ نام لیے ۔ استاد محترم نے شفقت سے کہا کہ ’یہ تم کس دھندے میں الجھ گئے ہو۔ دوسروں کے عقائد کی تغلیط ایک لاحاصل فعل ہے۔ انسان نے ہزاروں سال اس بے کار مشق میں صرف کیے ہیں۔

 اپنے لیے نافع علم کے کچھ موضوعات منتخب کرو اور کوشش کرو کہ انسانوں کو جو دکھ درپیش ہیں، ان کا کچھ درماں ہو سکے۔ دنیا میں ناانصافی کو کچھ کم کیا جا سکے‘۔ ڈاکٹر صاحب کو رخصت ہوئے ربع صدی گزر گئی۔ ان کی توقعات پر تو پورا نہیں اتر سکا لیکن یہ رائے آج تک وجہ تسکین ہے کہ علم ذاتی جاہ و حشم کا زینہ نہیں ، دوسرو ں کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھنے کا نا م ہے۔

Back to top button