آخری گیند تک لڑائی
تحریر : حماد غزنوی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
کیا آپ کو پاکستان کے اگلے وزیرِ اعظم کا نام معلوم ہے؟شاید ہی کوئی یقین سے اس سوال کا جواب دے سکے۔ اور اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آنے والے تین وزرائے اعظم کا نام بتائیں؟ تو یقیناً آپ سوال کرنے والے کی ذہنی حالت پر گہری تشویش محسوس کریں گے۔ اسی طرح اگر آپ سے پاکستان کے اگلے چار آرمی چیفس کا نام دریافت کیا جائے تو آپ سمجھ جائیں گے کہ سوال کرنے والا فنِ ظرافت میں درک رکھتا ہے۔دوسرے سب اداروں کا بھی یہی معاملہ ہے، اگلا چیف سیکرٹری، اگلا گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، اگلا سفیرِ پاکستان برائے واشنگٹن، اگلا یہ اگلا وہ، ہم نہیں جانتے کون ہو گا۔ مگر ہمارا ایک ادارہ، صرف اور صرف ایک ادارہ، ایسا بھی ہے جس نے ایک مقدس چٹان میں اپنے آنے والے سربراہوں کے نام کھود رکھے ہیں۔خواتین و حضرات، وہ ادارہ ہے سپریم کورٹ آف پاکستان!
آنے والے پانچ چیف جسٹس کا نام ہمیں معلوم ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کون کتنے سال کتنے مہینے کتنے دن تک چیف جسٹس رہے گا،ہم یہ بھی جانتے ہیں 2032 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مسند پر کون صاحب جلوہ آرا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے معاملات میں یہ قطعیت، یہ تیقن، یہ حتمیت کس طرح حاصل کی؟ قصہ یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور قانونی حلقوں کی بھرپور حمایت سے جسٹس افتخار چوہدری نے دوبارہ عنانِ عدالت سنبھالی تو انہیں مطلق العنان ہو تے زیادہ دیر نہ لگی، انہوں نے سپریم کورٹ کیلئے پارلیمان اور حکومت سے بلند و بالا کردار تخلیق کیا۔ صفتِ خلاقی کے اس مظاہرے میں انہیں ’سیپریشن آف پاور‘ اور ’چیک اینڈ بیلنس‘ جیسے نظریات کو تہہ و بالا کرنا پڑا، یعنی جمہوری نظام کی اساس کو تہہ و بالا کرنا پڑا۔نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اور مقننہ کے کئی فیصلوں کو عدالت نے دھجی دھجی کر نا شروع کیا اور وزرائے اعظم کو بے توقیر کر کے ان کے عہدے سے ہٹانے کا فریضہ بھی معزز ججوں نے بہ قلم خود سنبھال لیا۔ انہی فتوحات میں مندرجہ ذیل ’چوکیاں‘ بھی شامل تھیں: جج خود ججوں کو لگائیں گے، جج خود ججوں کو نکالیں گے، جج اپنی تنخواہیں اور پنشن بھی خود طے کریں گے، اور اس سارے عمل میں پارلیمان کا کردار عملی طور پر ختم کر دیا گیا۔ پارلیمان کو باقاعدہ دھمکی دے کر انیسویں ترمیم منظور کروائی گئی، اور عدالت کی قلعہ بندی مکمل کر لی گئی۔ اس دوران وکلاء کی چیمبر پالیٹکس کے نتیجے میں نئے جج بنانے کا عمل مستحکم تر ہوا ۔ اگر کاغذ پر دیکھیں تو سنیارٹی کے اصول پر چیف جسٹس بنانا قطعاً کوئی معیوب عمل دکھائی نہیں دیتا، لیکن اگر اس نظام کے اندر جھانکیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں کسی جج کی جوائننگ ڈیٹ ایک دن بھی آگے پیچھے کر کے یہ طے کر دیا جاتا ہے کہ کون دس سال بعد چیف جسٹس بنے گا اورکون نہیں۔ یعنی دہائیوں کیلئے فیلڈنگ سیٹ کر دی جاتی ہے۔ اگر کوئی آئینی ترمیم اس چرخے کو روک سکے تو کیا ہی اچھا ہو۔
مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج میں اور کیا کچھ شامل ہے، ڈھنگ کی باتیں کتنی ہیں اور رطب و یابس کتنا، یہ تو فائنل پیکیج سامنے آنے پر ہی معلوم ہو گا، لیکن فی الحال ہمیں یہ معلوم ہے کہ تمام تر ملکی سیاست انہی ترامیم کے گرد محوِ طواف ہے۔ جھگڑا بہت سیدھا سادہ ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے یہ تاثر دیا ہے کہ اگلا چیف جسٹس ’ان کا آدمی‘ ہے جو موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دے گا، عمران کو جیل سے رہا کر دے گا اور مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے راہ نمائوں پر مقدمات تازہ کر دے گا۔ بلا شبہ کچھ عدالتی فیصلوںنے اس تاثر کو تقویت دی ہے۔ حکومت گھبرا گئی اور اسے اپنی بقا کی جنگ قرار دے کر آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہو گئی۔ مقتدرہ بھی اسی خیال کی ہے کہ پاکستان اس وقت کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا، خدا خدا کر کے معیشت کچھ پٹری پر چڑھنا شروع ہوئی ہے، آئی ایم ایف پیکیج، افراطِ زر میں کمی، انٹرسٹ ریٹ میں کمی، انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری وغیرہ جیسے مثبت اشاروں کو مستحکم تر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن ان سب منصوبوں کے سامنے ’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔‘
عمران خان بھی اپنے سروایول کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ بھی قائل ہو چکے ہیں کہ سسٹم کے اندر سے انہیں صرف عدالت کے ایک حصے سے مدد مل سکتی ہے، اورآئینی ترامیم کا جھونکا اس آخری چراغِ امید کو بجھا سکتا ہے۔ یہ جو کچھ کچھ دن بعد علی امین گنڈاپور اسلام آباد پر تاخت کرتے ہیں تو یہ اسی قضیے کی ایک کڑی ہے۔ ڈرامے کی آخری قسط چل رہی ہے، جو ’کٹا کٹی‘ نکلنا ہے اگلے دو ہفتوں میں نکلنا ہے۔ عمران خان کا رابطہ اپنے منصب داروںسے توڑ دیا گیا ہے، مگر کوئی فرق نہیں پڑتا، سارے لشکر کو معلوم ہے ’’آخری حد‘‘ تک جانا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا دور یاد آتا ہے جب دو متوازی سپریم کورٹ آمنے سامنے بیٹھ گئی تھیں، بھارت کے سینئر ججوں کی ایک باغیانہ پریس کانفرنس بھی درِ یادداشت پر دستک دے رہی ہے۔
ادھر فلسطین کانفرنس کے نام پر وہ سب اصحاب اکٹھے ہو گئے جن کی ملاقات آئینی ترامیم کے لیے ضروری سمجھی جا رہی تھیں۔ مولانا آئینی ترامیم کے فیصلہ کن پہلوئوں کی حمایت کا پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ کے پی کی موجودہ متلاطم سیاسی حالت میں ریاست و حکومت مولانا کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ شنید ہے کہ حکومت بھی لوٹوں کے ووٹ سے آئینی ترامیم منظور نہیں کرانا چاہتی۔ چلتے چلتے ایک معصومانہ سوال : کیا آپ پورے وثوق سے بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کا اگلا چیف جسٹس کون ہو گا؟
خلیل جبران کے دیس کا المیہ