ضمنی الیکشن میں نواز لیگ کیوں ہاری اور پی ٹی آئی کیوں جیتی؟


پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتائج نے بڑے بڑے تجزیہ کاروں کو غلط ثابت کر دیا ہے جس کی بنیادی وجہ چند اہم ترین زمینی حقائق سے چشم پوشی تھی۔ اتوار کو ہونے والے الیکشن پاکستانی تاریخ میں اس حوالے سے منفرد رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں شکست کھانے کے باوجود فوری طور پر ان نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسلم لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ الیکشن میں شکست کی بنیادی وجہ کمر توڑ مہنگائی، عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیہ اور پارٹی کی جانب سے تحریک انصاف کے سابقہ ممبران پنجاب اسمبلی کو ٹکٹ دینا بنی۔ نواز لیگی حلقہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی کے ضمنی انتخابات کی طرح اس مرتبہ ان کا ووٹر باہر نہیں نکلا جبکہ پی ٹی آئی کے ووٹرز نے 2018 کے الیکشن میں جیتنے کے بعد پارٹی بدل کر نواز لیگ کا ٹکٹ لینے والوں کے خلاف بھر پور طریقے سے نفرت کا ووٹ ڈالا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بھی سر چڑھ کر بولا اور ووٹرز نے ان کا یہ الزام تسلیم کرلیا کہ انہیں اقتدار سے نکالنے میں فوج کا کردار تھا اور وہ اب بھی پی ٹی آئی مخالف سیاست کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کے امیدواروں کی ضمنی الیکشن میں شکست کی ایک اور بڑی وجہ یہ تاثر بھی بنی کہ نواز لیگ نے اقتدار کی خاطر ووٹ کو عزت دینے کا اپنا بیانیہ بھلا دیا اور فوجی بوٹ کو عزت دینے کا مشن اپنا لیا۔ ایسے میں شکست اس کا مقدر تھی۔

ضمنی الیکشن میں نواز لیگ کی عبرتناک شکست کے بعد اب پارٹی کے دل شکستہ ورکرز یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ہار کی بڑی وجہ شہباز شریف ہیں جنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر عمران خان کی چار سالہ حکومتی ناکامیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا اور اپنے بیٹے کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے بعد عوام پر مہنگائی کے بم گرانا شروع کردئیے۔ یوں چار ماہ پہلے تک پاکستانی عوام کی مقبول ترین جماعت سمجھی جانے والی نواز لیگ کا ضمنی الیکشن میں دھڑن تختہ ہو گیا۔ شکستہ دل نون لیگیوں کی ایک بڑی تعداد الیکشن نتائج کی ذمہ دار آصف علی زرداری کو بھی ٹھہرا رہی ہے جنہوں نے بقول انکے شریفوں کو ورغلایا اور اقتدار لینے پر مجبور کیا جس کا نتیجہ اب تباہی کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ لیکن دوسری جانب کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 17 جولائی کو جو کچھ بھی ہوا اس کے ذمہ داری صرف نواز شریف پر آتی ہے جو وطن واپس آنے سے انکاری ہیں اور لندن سے بیٹھ کر سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تجزیہ کار یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ زرداری نے نواز شریف کو اپنے مفاد کی خاطر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوایا اور یوں نواز شریف کو ماموں بنا دیا۔ وہ یہ بات بھی تسلیم نہیں کرتے کہ شہباز نے نواز شریف کی مرضی کے خلاف وزارت عظمیٰ حاصل کی ہو گی کیونکہ نون لیگ میں اب بھی اصل فیصلہ ساز نواز شریف ہی ہیں۔ سینئر صحافی جاوید چوہدری کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ملاقات میں نواز شریف خود یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ انہوں نے مئی 2022 میں شہباز کو استعفی دینے سے منع کیا تھا خصوصا جب عمران خان نے حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ لہذا تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ اگر میاں صاحب نے اپنی سیاست بچانی ہے تو انہیں وہاں واپس آنا ہو گا پھر چاہے انہیں جیل بھی کیوں نہ جانا پڑے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 17 جولائی کے الیکشن نتائج سے پاکستانی سیاست ایک قدم اور آگے بڑھ گئی ہے کیونکہ پاکستانی عوام نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو سختی سے رد کر دیا یے اور لوٹوں کو بھی دفن کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن میں نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو بلکہ اس کے سیاسی اتحادیوں کو بھی شکست ہوئی ہے اس لیے اب پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اپنی سیاست بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھانا ہو گی۔

پارٹی کی نائب صدر مریم نواز شریف نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’مسلم لیگ (ن) کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنا چاہییں۔ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ دل بڑا کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ انشاءاللّہ خیر ہو گی۔‘

یہ بھی پہلا موقع ہے کہ کسی حکمران جماعت نے الیکشن کے مکمل نتائج آنے سے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرلی ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچ بجے ووٹنگ ختم ہونے کے بعد عمران خان نے ایک ٹویٹ میں الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کر دیے تھے لیکن پھر جوں جوں نتائج آتے گے، عمران کا بیانیہ بدلتا گیا۔ یوں الیکشن نتائج نے عمران خان کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور الیکشن کمیشن پر لگائے گئے تمام تر الزامات کو غلط ثابت کر دیا۔

17 جولائی کے الیکشن نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت اب مرکز اور پنجاب میں اب مشکل ترین صورتحال کا شکار ہے اور بائیس جولائی کے وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں پرویز الہی کی جیت یقینی نظر آتی ہے۔ یوں حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلی صرف تین مہینے میں ہی ختم ہو جائے گی۔ دوسری جانب عمران خان سمیت کئی اپوزیشن رہنماوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو اب مستعفی ہو جانا چاہیے۔ سینئیر صحافی نصرت جاوید نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ اُنھیں امید ہے کہ شہباز شریف اپنی دستبرداری کی تقریر تیار کر رہے ہوں گے اور فوری طور پر اسکا اعلان کر دیں گے۔ صحافی سیرل المیڈا نے لکھا کہ اب جبکہ نواز شریف خاموشی سے لندن میں بیٹھے ہیں تو پہلے عمران خان اُن کا بیانیہ لے گئے اور اب بظاہر پنجاب کے ووٹرز کو بھی لے گئے ہیں۔ صحافی ابصا کومل نے لکھا کہ پی ٹی آئی نے منحرف ارکان اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے بیانیے سے بھاری تعداد میں ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اُنھوں نے لکھا کہ یہ واضح ہے کہ عمران خان کو وفاق سے ہٹانے پر پنجاب بھی اُن کے ہاتھ سے چلا گیا ہے۔

دوسری جانب حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو فوری طور پر کوئی خطرہ درپیش نہیں چونکہ عمران خان قومی اسمبلی سے اپنے ساتھیوں سمیت مستعفی ہو چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ویسے بھی نون لیگ کو فوری نئے الیکشن سوٹ نہیں کرتے۔ انکے خیال میں شہباز شریف کے لیے مشکل یہ ہے کہ اگر انتخابات جلد کروا دیے گئے تو مسلم لیگ (ن) بہت سخت مشکل میں پڑ جائے گی کیونکہ اس وقت عمران خان کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا یے اور حکومت ختم کرکے نئے الیکشن کروانا پوری ہی ڈی ایم کی شکست کے مترادف ہو گا۔ یاد رہے کہ رواں سال نو اپریل کو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت نے وفاق سنبھالا تو ملکی معیشت کے سامنے کئی چیلنجز موجود تھے۔ خود مسلم لیگ (ن) بار بار کہتی رہی کہ اُنھیں علم ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مشکل فیصلے اُن کی سیاست کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتے ہیں مگر وہ یہ فیصلے پھر بھی کریں گے۔ چنانچہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ضمنی الیکشن میں کافی حد تک ان فیصلوں کی قیمت چکائی ہے۔

Back to top button