عاصم منیر کو یحییٰ قرار دینے پرعمران کو معافی ملنا ناممکن کیوں؟
9 مئی کو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والی تحریک انصاف نے اب عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے 1971 سے متعلق ویڈیو پوسٹ کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑا مار دیا ہے۔سیاسی مبصرین تحریک انساف کی جانب سے شیخ مجیب بارے ٹوئیٹ کی جانے والی ویڈیو کو سیاست کی بجائے سیاسی دہشت گردی اور ملک توڑنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ویڈیو کی وجہ سے عسکری حلقے پی ٹی آئی قیادت پر شدید برہم ہے، جہاں ایک طرف حکومت اس حوالے سے متحرک ہو چکی ہے وہیں دوسری جانب اس نئے بیانیے کا منطقی انجام تحریک انصاف پر پابندی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق الزام تراشیوں اور جارحانہ بیانیے کی وجہ سے تحریک انصاف گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر وہ لوگ جو تصادم نہیں چاہتے تھے آہستہ آہستہ پیچھے چلے گئے ہیں تاہم عمران خان تصادم والا بیانیہ چھوڑنے سے انکاری ہیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ عوام نے ان کو ووٹ بھی اسی بیانیے پر دیا ہے۔ اس لڑائی میں پارلیمنٹ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی غیر متعلق ثابت ہو رہی ہیں۔ عمران خان کی ٹوئیٹ پر پی ٹی آئی اسی قسم کا ردعمل دے رہی ہے جیسا وہ 9 مئی سے متعلق دیتی رہی ہے۔ یہی پی ٹی آئی کی دوغلی پالیسی ہے۔
سینئر صحافی رضا رومی کے مطابق پی ٹی آئی نے جب عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے شیخ مجیب والی ویڈیو پوسٹ کی ہے تو اسے یہ ذمہ داری لینی چاہیے۔ انہیں کہنا چاہیے کہ ہاں ہم کہتے ہیں غدار آرمی چیف ہے یا پھرتحریک انصاف کو اس ویڈیو سے لاتعلقی ظاہر کرنی چاہیے۔ رضا رومی کے مطابق عمران خان کی یہی سوچ ہے اور وہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو بھی میر جعفر، میر صادق کہتے آئے ہیں۔ کسی سیاسی رہنما یا جماعت کی طرف سے حاضر سروس آرمی چیف کا جنرل یحییٰ سے موازنہ کرنا اور انہیں غدار قرار دینا معمولی بات نہیں، یہ لڑائی اب بڑھے گی۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے آفیشل ‘ایکس’ اکاؤنٹ سے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی ویڈیو اپ لوڈ کرنے کا معاملہ پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔وفاقی تفتیشی ادارے ایف آئی اے کے سائبر ونگ نے اس معاملے پر انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے 26 مئی کو تین منٹ 34 سیکنڈ کی ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں 1971 میں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجوہات کے بارے میں بات کی گئی۔ویڈیو میں شیخ مجیب الرحمٰن کی تعریف کی گئی اور اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل یحییٰ پر تنقید کی گئی تھی۔ اس ویڈیو کے بعد 27 منٹ کی یہی ویڈیو اردو میں عمران خان کے الفاظ کے ساتھ جاری کی گئی تھی۔اس ویڈیو میں 3 منٹ اور 10 سیکنڈ پر جنرل یحییٰ کی تصویر کے بعد موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تصویر لگائی گئی اور کہا گیا کہ آج بھی خود کو ریاست سمجھنے والے ‘جنگل کے بادشاہ’ نے عوام کی اکثریتی جماعت کے مینڈیٹ پر ‘ڈاکا’ ڈال کر مسترد شدہ اقلیت کو ملک پر مسلط کر رکھا ہے۔ آج پاکستان میں سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخ دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ساتھ میں اس ویڈیو پر پاکستان کی موجودہ حکومت اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور آٹھ فروری کو مبینہ پرتشدد واقعات کی ویڈیوز لگائی گئی ہیں۔عمران خان کے اکاؤنٹ سے پوسٹ ہونے والی ویڈیو کو ‘غدار کون تھا؟’ کہ ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کیا گیا۔اس ویڈیو کے ساتھ عمران خان کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا اور یہ جاننا چاہیے کہ اصل غدار تھا کون؛ جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمٰن۔“
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کا موازنہ 1971 کے حالات سے کرنا درست نہیں ہے۔ اس وقت ایسی بات کرنا ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کے مطابق اس ویڈیو کو کسی صورت قابلِ قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ ایک سخت سیکیورٹی میں موجود شخص سے منسوب ایسی ویڈیو کیسے جاری کی گئی؟اُن کے بقول اگر جیل کے اندر سے یہ ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے تو اس بارے میں ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے یہ ویڈیو پوسٹ کی ہے یا نہیں۔اگر عمران خان نے ویڈیو پوسٹ نہیں کی تو اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ ان کا اکاؤنٹ کس نے آپریٹ کیا ہے۔ دوسرا اگر انہوں نے ویڈیو پوسٹ کی یا ان کی مرضی سے پوسٹ ہوئی تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔جنرل لودھی نے مزیدکہا کہ 1971 کے حالات کا آج کے حالات سے موازنہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی ایسا کر رہا ہے تو وہ پاکستان کے خلاف بھی بات کر رہا ہے اور پاکستان فوج کا بھی مخالف ہے۔