مہنگائی کے مارے عوام پر بجٹ میں کون سے ٹیکس لگنے والے ہیں؟

وفاقی حکومت رواں ماہ نئے مالی سال کے لیے بجٹ پیش کرنے والی ہے اور ماہرین نئی حکومت کے پہلے بجٹ کو ملک معاشی حالات کے تناظر میں ایک بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو کئی شعبوں میں ٹیکس چھوٹ مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی۔

بجٹ کی تیاری ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام میں جانے کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان کے بجٹ خسارے اور آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کرنا ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں کئی ٹیکسز میں اضافہ اور بعض نئے ٹیکس لگنے کا بھی امکان ہے۔

بجٹ امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹو سیکٹر میں ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ کی تجویز سامنے آئی ہے جس کے تحت گاڑی کی مالیت پر 10 فی صد نیا ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔ اسی طرح 2 ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر پہلے سے موجود سالانہ ایڈوانس ٹیکس فائلرز کے لیے 5 لاکھ روپے کیا جارہا ہے جب کہ نان فائلرز کے لیے یہ ٹیکس 24 فی صد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ اس سے حکومتی ریونیو میں تو اضافہ ہوگا مگر اس سے ملک میں گاڑیوں کی فروخت مزید کم ہو جائے گی۔

ماہرِین معیشیت کا کہنا ہے کہ کریڈٹ کارڈز پر بیرونی ادائیگیوں پر نان فائلرز کے لیے 20 فی صد ٹیکس عائد کیا جارہا ہے  دوسری جانب کریڈٹ کارڈز سے بیرونی ادائیگیاں کرنے والے فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔۔

اگر آپ ملک سے باہر بزنس کلاس میں سفر کررہے ہوں گے تو آپ کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی بجائے اب فکس ٹیکس دینا ہوگا جو روٹس کی مناسبت سے طے کیا جائے گا۔ اس پر کم سے کم ٹیکس 75 ہزار روپے سے اڑھائی لاکھ روپے تک رکھنے کی تجویز ہے۔

پاکستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب

 

ایک تجویز کے مطابق بینکوں سے کیش نکالنے پر نان فائلرز کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے اور اب اس کے لیے نئی شرح اعشاریہ 9 فیصد مقرر کی جارہی ہے۔ جو پہلے اعشاریہ 6 فی صد تھی۔

وفاقی حکومت نے زرعی آمدنی، نان کارپوریٹ کاروبار، سروس پروائڈرز بلڈرز اور کنسٹرکشن فرمزپر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک تجویز کے تحت بجلی کے 2 لاکھ سے زائد والے بلز پر نان فائلرز صارفین کے لیے ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 20 فی صد تک کی جارہی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے بجلی اور گیس کے ایسے نان فائلرز صارفین پر بھی ٹیکس کی شرح 30 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کمرشل اور انڈسٹریل کنکشنز رکھتے ہیں۔

بجٹ کے لیے سیلز ٹیکس کے ساتھ ایکسٹرا سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ شادی ہالز کا بل 2 لاکھ روپے سے زائد ہونے کی صورت میں 25 فی صد میرج ہالز ٹیکس بھی لینے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کے ساتھ اب حکومت نے ایک بار پھر 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس لاگو کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس عمل سے جہاں مہنگائی بڑھے گی وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے۔

حکومت نے آمدن بڑھانے کے لیے اس بار ادویات پر بھی 10 سے 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے منفی اثرات کے تحت ملک میں ادویات مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ تاہم عوامی ردعمل کی بنا پر یہ تجویز واپس بھی لی جاسکتی ہے۔

رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے حکومت کئی تجاویز پر سوچ بچار کررہی ہے۔ ایک تجویز کے مطابق زرعی زمین اور پراپرٹی پر اعشاریہ 5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شہری علاقوں میں 450 گز سے زائد کی پراپرٹی فروخت کرنے پر نان فائلرز کو ساڑھے 10 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

Back to top button